وزیرستان میں پراسرار ڈرون حملے پاک فوج کر رہی ہے یا دہشت گرد؟

خیبر پختون خواہ کے قبائلی علاقوں میں پراسرار ڈرون حملوں میں شہریوں کی اموات کا سلسلہ جاری ہے لیکن ان کی ذمہ داری لینے کو کوئی تیار نظر نہیں آتا۔ ایک جانب مقامی افراد کا کہنا ہے کہ ان ڈرون حملوں میں بے گناہ شہری مارے جا رہے ہیں تو دوسری جانب کہا جا رہا ہے کہ یہ حملے ریاست مخالف شدت پسند عناصر کر رہے ہیں۔ تاہم کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ان ڈرونز کا اصل ہدف ریاست مخالف پاکستانی طالبان ہیں۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے خیبر پختونخوا میں حالیہ مہینوں کے دوران ڈرون حملوں میں تیزی اور ان کے نتیجے میں شہریوں کی ہلاکتوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے خیبر پختونخوا میں رواں سال ڈرون حملوں میں پانچ بچوں سمیت 17 افراد کی اموات پر ردِعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’پاکستانی حکام خیبر پختونخوا کے شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کے لیے مؤثر اقدامات اٹھانے میں ناکام رہے ہیں۔ صوبے میں ڈرون حملوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور 20 جون کو ایک اور حملے میں ایک بچے کی موت نے اس خطرناک رجحان کو مزید نمایاں کیا ہے۔‘ بیان میں کہا گیا کہ ’ڈرونز اور کواڈ کاپٹرز سے حملوں کے نتیجے میں شہری ہلاکتیں ہو رہی ہوں، جو بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔
دوسری جانب پاکستانی حکام ان حملوں کی ذمہ داری لینے سے انکار کرتے ہیں۔ اب تک جو علاقے ڈرون حملوں کا نشانہ بنے ہیں ان میں مردان، میر علی، وانا، لدھا، برمل، سراروغہ اور مکین شامل ہیں جہاں شہری ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ ضلع کرم سے منتخب رکن قومی اسمبلی حمید حسین نے پشاور میں ایک پریس کانفرنس میں الزام لگایا ہے کہ اب خواتین اور بچے گھر یا کھیل کے میدان میں بھی محفوظ نہیں کیونکہ وہاں ڈرون حملے ہو رہے ہیں۔
تاہم یہ ایسے پر اسرار حملے ہیں جن کے بارے میں حکومت کی جانب سے نہ کوئی تفصیل بتائی جاتی ہے اور نہ ہی یہ بتایا جاتا ہے کہ یہ کواڈ کاپٹرز حملے ہیں یا ڈرون اور یہ کون کر رہا ہے۔ جنوبی وزیرستان سے منتخب رکن صوبائی اسمبلی آصف خان محسود نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ خیبر پختون خواہ کے قبائلی علاقوں میں ان ڈرون یا کواڈ کاپٹرز کی وجہ سے سخت خوف پایا جاتا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ 25 جون کو ایک گرینڈ جرگہ منعقد ہو گا جس میں ان حملوں کے حوالے سے آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا۔
ضلع کرم سے منتخب رکن قومی اسمبلی حمید حسین نے پشاور میں ایک پریس کانفرنس میں پراسرار ڈرون حملوں بارے کہا کہ پتہ نہیں یہ عسکریت پسند کر رہے ہیں یا سکیورٹی فورسز سے غلطیاں ہو رہی ہیں، لیکن یہ سلسلہ جاری ہے اور علاقے میں بہت خوف پایا جاتا ہے۔
شمالی اور جنوبی وزیرستان کے مکینوں کا کہنا ہے کہ انکے علاقوں میں ’ڈرون یا کواڈ کاپٹر اکثر نظر آتے ہیں جس سے خوف پایا جاتا ہے۔ دوسری جانب پاکستانی حکام اور امریکی محکمہ دفاع کی 2021 کی تحقیقی رپورٹس کے مطابق امریکہ کے افغانستان سے نکل جانے کے بعد افغانستان میں موجود اسلحہ مختلف گروہوں کے ہاتھ لگا، جن میں انتہائی جدید اسلحہ اور ڈرونز بھی شامل ہیں۔ افغانستان میں سال 2003 سے 2016 کے درمیان امریکہ نے افغان فورسز کے لیے بھاری مقدار میں فوجی سازوسامان بھیجا جو امریکہ کے ساتھ لڑائی میں شریک تھے۔ امریکی حکومت کی احتساب رپورٹ کے مطابق اس سامان میں مختلف ساخت کی تین لاکھ 58 ہزار 530 رائفلیں، 64 ہزار سے زیادہ مشین گن، 25،000 گرینیڈ لانچر اور 22000 گاڑیاں شامل تھیں۔
پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ یہ سارا اسلحہ اب پاکستان میں کچھ شدت پسند گروہ استعمال کر رہے ہیں۔ پاکستانی حکام نے شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی میں ہونے والے ایک ڈرون حملے کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے اسے تحریکِ طالبان پاکستان کی کارروائی قرار دیا۔ لیکن تحریک طالبان کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ان ڈرون حملوں کا ان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ ترجمان نے بتایا کہ ٹی ٹی پی نے ابھی تک کسی ایسے حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی اور نہ ہی انکے پاس ایسی اطلاعات ہیں البتہ کچھ دیگر جہادی گروپس نے ایسے حملوں کی ذمہ داری قبول کی۔
اس حوالے سے سینیئر تجزیہ کار اور محقق عبدالسید کا کہنا تھا کہ پاکستانی طالبان کے سب سے بڑے دھڑے، تحریک طالبان نے تاحال نہ تو ڈرون حملے کی ذمہ داری قبول کی اور نہ ہی اس نئی ٹیکنالوجی تک رسائی سے متعلق کوئی ویڈیو جاری کی۔ ان کا کہنا تھا کہ اپریل 2025 میں پاکستانی طالبان کے دیگر دو دھڑوں حافظ گل بہادر نیٹ ورک اور لشکر اسلام کا اتحاد ہو گیا تھا۔ اس اتحاد کا نام اتحاد المجاہدین رکھا گیا جس نے 8 مئی 2025 کو شمالی وزیرستان کے علاقے عیدک میں ہونے والے ڈرون حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ اتحاد کے ترجمان محمود الحسن نے اس حملے میں سکیورٹی فورسز کی ایک چیک پوسٹ کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا تھا جس سے واضح ہوتا ہے کہ اتحاد المجاہدین کے پاس ڈرون حملوں کی صلاحیت موجود ہے۔
کیا پاکستانی نیوکلیئر صلاحیت ختم کرنے کا منصوبہ بن چکا ہے؟
لیکن یہ حملے اس لیے ایک معمہ بن گئے ہیں کیونکہ حکومت کی طرف سے اس بارے میں کوئی وضاحت نہیں کی جا رہی۔ چند روز پہلے وزیر اعلی خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور نے پشاور میں وزیر اعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کی موجودگی میں کہا تھا کہ خیبر پختونخوا میں ڈرون حملے بند ہونے چاہییں۔ تحریک انصاف پشاور میں ان ڈرون حملوں کے خلاف احتجاج بھی کر چکی ہے۔ شمالی وزیرستان میں حالیہ احتجاجی دھرنوں میں لوگوں کا مطالبہ تھا کہ حکومت ان حملوں کی وضاحت کرے اور جو کوئی بھی انھیں استعمال کر رہا ہے ان کی روک تھام اور ان عناصر کو سامنے لائے۔