کیا ایران واقعی اگلے چند ماہ میں نیوکلیئر طاقت بننے جا رہا تھا؟

اسرائیل کی جانب سے ایرانی نیوکلیئر تنصیبات پر حملوں کے بعد یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا واقعی ایران اگلے چند ماہ میں ایٹمی طاقت بننے جا رہا تھا؟ یاد رہے کہ اسرائیل نے ایران پر حملوں کی یہ توجیہہ پیش کی ہے کہ ان کا مقصد ایران کو ایٹمی طاقت بننے سے روکنا تھا۔
اسرائیلی حملوں نے نہ صرف ایران کے یورینیئم افزودگی کے پلانٹ کو نقصان پہنچایا ہے بلکہ اس کی ٹاپ فوجی لیڈرشپ اور جوہری سائنس دانوں کا بھی خاتمہ کر دیا ہے۔ایران کے وزیرِ خارجہ عباس عراقچی کا کہنا ہے کہ نطنز میں واقع یورینیئم افزودگی کا پلانٹ عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی کے زیرِ نگرانی چل رہا تھا جس پر اسرائیل کے ناجائز حملے سے ’ریڈیولاجیکل تباہی‘ کا امکان تھا۔ دوسری جانب اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامن نتن یاہو نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ حملہ اسرائیل کی بقا کو یقینی بنانے کے لیے ضروری تھا تاکہ ایران کے ایٹمی پروگرام کو مکمل ہونے سے روکا جا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل نے یہ کارروائی اس لیے کی کہ اگر ایران کو روکا نہ جاتا تو وہ بہت جلد جوہری ہتھیار بنانے جا رہا تھا۔
انھوں نے کہا کہ ’یہ ایک سال کے اندر بھی ہو سکتا تھا اور کچھ ماہ میں بھی ہو سکتا تھا۔‘
یاد رہے کہ اسرائیل کے پاس بھی جوہری ہتھیار موجود ہیں لیکن وہ نہیں چاہتا کہ مشرق وسطی میں کسی مسلم ملک کے پاس نیوکلیئر ہتھیار ہوں۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس کی انٹیلی جنس انفارمیشن سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایرانی حکومت نے ایٹم بم بنانے کے لیے تمام ضروری ہتھیاروں کے حصے تیار کرنے کی کوششوں میں ’ٹھوس پیش رفت‘ کی ہے۔ اس میں یورینیئم میٹل کور metal cover اور نیوکلیئر دھماکہ کرنے کے لیے ضروری نیوٹرون سورس انیشییئیٹر nuclear source initiator شامل ہیں۔
لیکن امریکی آرمز کنٹرول ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ اسرائیلی وزیرِ اعظم نے ایسے کوئی ٹھوس شواہد پیش نہیں کیے جن سے ثابت ہو سکے کہ ایران جوہری ہتھیار بنانے کے نزدیک تھا۔
اسرائیلی حملوں کے ناقدین کا کہنا ہے کہ اسرائیل پچھلے 30 برس سے یہی پروپگینڈا کر رہا ہے کہ ایران نیوکلیئر ہتھیار بنانے کے قریب ہے لیکن اس حوالے سے کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔ امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے مطابق بھی ایران نیوکلیئر ہتھیار بنانے پر کام نہیں کر رہا تھا۔ رواں سال مارچ میں امریکی نیشنل انٹیلی جنس کی ڈائریکٹر تلسی نے کانگریس کو بتایا تھا کہ امریکی انٹیلی جنس کمیونٹی کا اب بھی یہ ’اندازہ ہے کہ ایران جوہری ہتھیار نہیں بنا رہا۔ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ ایران کے رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای نے 2003 میں معطل کیا جانے والا جوہری ہتھیاروں کا منصوبہ دوبارہ شروع کرنے کی منظوری نہیں دی۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ اگر نیتن یاہو کو خالصتاً ایران کے جوہری طاقت بننے کا ڈر تھا تو اسرائیل یہ انٹیلی جنس امریکہ کے ساتھ شیئر کر سکتا تھا جو کہ ایران سے نیوکلیئر معاہدے کے لیے مذاکرات کر رہا تھا۔ اسرائیلی حملوں کے بعد امریکہ اور ایران کے نیوکلیئر ایشو پر مذاکرات بھی ختم ہو چکے ہیں۔ دوسری جانب عالمی جوہری ایجنسی نے حال ہی میں اپنی تازہ ترین سہ ماہی رپورٹ میں کہا تھا کہ ایران 60 فیصد تک خالص یورینیئم افزودہ کرنے میں کامیاب ہو چکا ہے جو کہ نیوکلئیر ہتھیار بنانے کے لیے درکار 90 فیصد یورینیئم افزودگی سے 30 فیصد دوری پر ہے۔ رپورٹ کے مطابق افزودہ یورینیئم کی مقدار اتنی ہے جس سے ممکنہ طور پر 9 عدد ایٹم بم بنائے جا سکتے ہیں۔
تاہم ایران ہمیشہ سے زور دیتا آیا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام مکمل طور پر پُرامن مقاصد کے لیے ہے اور اس نے کبھی نیوکلیئر ہتھیار بنانے کی کوشش نہیں کی ہے۔ تاہم آئی اے ای اے کی ایک دہائی تک جاری رہنے والی تحقیقات میں سامنے آیا ہے کہ ایران نے 1980 کی دہائی کے اواخر سے 2003 تک ایسی متعدد ’سرگرمیاں انجام دیں جو ایٹمی دھماکہ خیز ڈیوائس کی تیاری‘ کے زمرے میں آتی ہیں۔ تاہم 2003 میں ’پروجیکٹ امد‘ نامی اس منصوبے کو روک دیا گیا تھا۔ایجنسی کا کہنا ہے کہ اس کے بعد بھی 2009 تک ایران نے مختلف سرگرمیاں جاری رکھیں۔ اس وقت مغربی طاقتوں نے زیرِ زمین افزودگی کے مرکز فورڈو کا انکشاف کیا تھا۔ تاہم آئی اے ای اے نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اس کے بعد سے ہتھیاروں کی تیاری کے ’کوئی قابل اعتماد شواہد‘ نہیں ملے ہیں۔
پاکستان نیوکلیئر طاقت نہ ہوتا تو امریکہ اسکے ساتھ کیا سلوک کرتا؟
سنہ 2015 میں ایران نے دنیا کی چھ طاقتوں کے ساتھ ایک جوہری معاہدے پر دستخط کیے جس کے تحت ایران پر عائد پابندیاں اٹھانے کے بدلے اس نے نہ صرف اپنی جوہری سرگرمیوں پر پابندیاں قبول کیں بلکہ آئی اے ای اے کے معائنہ کاروں کو سخت نگرانی کی اجازت بھی دی۔اس معاہدے کے تحت ایران پر افزودہ یورینیئم کی پیداوار پر بھی قدغن لگائی گئی۔ یہ یورینیئم جوہری ری ایکٹر کے ایندھن کے طور پر استعمال ہونے کے ساتھ ساتھ جوہری ہتھیاروں کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔
لیکن 2018 میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی پہلی مدتِ صدارت کے دوران اس معاہدے کو یہ کہتے ہوئے ختم کر دیا کہ اس سے ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکنے میں زیادہ مدد نہیں ملی اور انھوں نے ایران پر امریکی پابندیاں بحال کر دیں۔ ایران نے اس کے جواب میں پابندیوں کی خلاف ورزی کی، خاص طور پر افزودگی سے متعلق پابندیوں کی۔
جوہری معاہدے کے تحت فورڈو میں 15 سال تک افزودگی کی اجازت نہیں تھی۔ تاہم 2021 میں ایران نے 20 فیصد تک یورینیئم کی افزودگی دوبارہ شروع کر دی۔ایران کا کہنا ہے کہ وہ ایک محفوظ مقام پر یورینیئم افزودگی کی سہولت قائم کرے گا اور فورڈو پلانٹ میں یورینیئم کی افزودگی کے لیے استعمال ہونے والے فرسٹ جنریشن سینٹری فیوجز کی جگہ جدید چھٹی جنریشن کی مشینیں نصب کرے گا۔