کوتوال ِشہر کو ملنے والا حکم نامہ
تحریر: یاسر پیر زادہ ۔۔۔۔۔۔۔ بشکریہ: روزنامہ جنگ
کوتوال شہر کو رات کے پچھلے پہر بادشاہ کا حکم نامہ ملا۔ وہ سونے کیلئے اپنی خوابگاہ میں جا چکا تھا اور اُس کے محافظوں کو یہ ہدایات تھیں کہ کسی بھی صورت اسے بیدار نہ کیا جائے ، سو جب اسے گہری نیند سے جگایا گیا تو خیال تھا کہ وہ برا فروختہ ہو کر محافظوں کو برا بھلا کہے گامگر خلاف توقع ایسا نہیں ہوا۔ یہ بہت حیران کُن بات تھی مگر کوتوال کے محافظوں نے اب حیران ہونا ترک کردیا تھا، وہ کسی بھی صورتحال میں اپنی تشویش یا جذبات کا اظہار نہیں کرتے تھے ، انہیں دیکھ کر یوں لگتا تھا جیسے وہ گوشت پوست کے انسان نہیں بلکہ حکم کی بجا آوری کرنے والے پُتلے ہیں۔اور یہ ماحول صرف کوتوالی تک محدود نہیں تھا بلکہ پچھلے کچھ عرصے میں پورے شہر کی فضا ہی ایسی بن گئی تھی کہ ہر شخص ایک دوسرے سے بیگانہ ہوا پھرتا تھا ۔ایسا محسوس ہوتا تھا کہ شہر کی ہواؤں میں کسی نے افسوں پھونک دیا ہو،گو کہ شہر کے باسیوں کے معمولات میں کوئی فرق نہیں آیا تھا ،مگر کچھ نہ کچھ ایسی بات ضرور تھی جس نے ماحول میں آزردگی پیدا کر رکھی تھی۔حاکم وقت کے محل کے دروازوں پر سپاہی تعینات تھے جن کی سنگینوں کا رُخ شہر کی مرکزی شاہراہ کی جانب ہوتاتھا، اور قلعے کی اونچی فصیل پربھی ہر لحظہ چاق وچوبند محافظوں کا پہرا رہتا تھا ۔یہ محافظ کوتوال کے مہیا کردہ تھے ، اُس کی ذمہ داری تھی کہ وہ فرماں روا کی حفاظت کیلئے انہیں مامور کرے۔فرماں روا کا حکم نامہ وصول کرتے وقت اسے یہی خیال آیا کہ شاید انہی محافظوں سے متعلق کوئی نیا حکم ہے جسکی بجاآوری اسے فوری طور پر کرنی ہے ،مگر اُس کا اندازہ غلط ثابت ہوا۔یہ حکم نامہ اُن دشمنوں کی سرکوبی سے متعلق تھا جو حاکمِ وقت کی آنکھ میں کھٹکتے تھے ۔کوتوال کو ماضی میں بھی یہ حکم نامےموصول ہوتے رہے تھے اور اُس نے اِن احکامات کی تعمیل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی، مگر یہ حکم نامہ قدرے مختلف تھا ، اِس کی زبان خاصی سخت تھی اور اِس کے مندرجات سے لگتا تھا جیسے بادشاہ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے اور اب وہ شر پسند عناصر کے معاملے میں کسی قسم کی نرمی دکھانے کاروادار نہیں ۔کوتوال نے حکم نامے کی تحریر کئی مرتبہ پڑھی ،اِ س میں کوئی ابہام نہیں تھا اور نہ ہی اِس بات کی گنجائش تھی کہ رئیس ِ شہر کے احکامات کو ایسے معنی پہنائے جا سکیں جن کی روشنی میں اُن عناصر سے نرمی برتی جا سکے جن کی جانب حکم نامے میں اشارہ کیا گیا تھا ۔اُس نے حکم نامے پر لگی مہرکو غور سے دیکھا اور گہری سوچ میں ڈوب گیا۔بادشاہ کے حکم کی رُو سے صبح ہوتے ہی کوتوال کو ریاست دشمن افرادکو گرفتار کرکے محل میں پیش کرنا تھا۔بظاہر یہ کوئی مشکل کام نہیں تھا ، پہلے بھی کوتوال ِ شہر اِس قسم کے احکامات پر عملدرآمدکرتا رہتا تھا مگر نہ جانے کیوں اِس مرتبہ وہ یہ قدم اٹھانے سے ہچکچا رہا تھا ، شاید اِس کی وجہ حکم نامے کی تحریر تھی ،اُس تحریر کو پڑھ کر خود کوتوال بھی تذبذب کا شکار ہوگیا تھا، اسے یقین تھا کہ اِس مرتبہ جن لوگوں کو گرفتار کرکے قلعے میں پہنچایا جائے گا اُن کی جاںبخشی نہیں ہوگی ۔اصولاً کوتوال کو اِس بات کی پروا نہیں کرنی چاہیے تھی، آخر اُ س کا یہی کام تھا۔ویسے بھی وہ ایک سخت گیر انسان تھا ، اُس کے چہرے سے درشتی جھلکتی تھی ، لوگ اُس سے خوفزدہ رہتے تھے ،تاہم کچھ عرصے سے کوتوال کی طبیعت میں بیزاری آگئی تھی جس کی وجہ شاید شہر کا افسردہ ماحول تھا ۔ وہ اپنے فرائض کی بجا آوری تو کررہا تھا مگر پہلے والے جذبے کے ساتھ نہیں اور یہ بات خود اسے بھی معلوم تھی ۔اچانک اُس کے دماغ میں خیال آیا کہ اِس حکم نامے کی زبان کہیں اِس وجہ سے تو سخت نہیں کہ حاکم ِ وقت نے اُس کے کام میںکوتاہی نوٹ کی ہے ۔لیکن ایسا کیوں کر ہوسکتا ہے، میں نے تو کبھی حکم عدولی نہیں کی ، اُس نے سوچا۔ یہ بات درست تھی ، کوتوال نے کبھی قلعے سے موصول ہونے والے احکامات پر عمل کرنے میں کوئی لا پروائی نہیں برتی ، مگر پھر اسے خیال آیا کہ جب تک یہ احکامات شہر میں امن و امان کو یقینی بنانے سے متعلق ہوا کرتے تھے اُس وقت تک واقعی وہ بڑی تندہی سے کام کرتا تھا مگر پھر دھیرے دھیرے شہر میں امن قائم رکھنے کی خاطر اسے وہ حد بھی پار کرنی پڑی جو وہ نہیں کرنا چاہتا تھا ۔شاید کوتوال کے یہی وہ اقدامات تھے جن کی وجہ سے شہر کے لوگوں نےآپس میں میل جول اور روابط تقریباً ختم کردیے تھے اور اب وہ محض ضرورت کے تحت ایک دوسرے سے ملتے تھے اور زیادہ تر خاموش رہتے تھے۔کوتوال کو اِ ن باتوں کا اچھی طرح ادراک تھا ، اُس کا خیال تھا کہ حاکم وقت کو اپنے حکم نامے پر نظر ثانی کرنی چاہیے ۔لیکن اسے یہ بات بھی معلوم تھی کہ بادشاہ کو حکم نامہ واپس لینے پر قائل کرنا بے حد مشکل کام ہوگا کیونکہ بادشاہ ہر صورت اپنے احکامات پر عملدرآمد کروانے کا خواہش مندہوگا ۔جو بھی ہو، یہ بات ضرور بادشاہ کے علم میں لانی چاہیے کہ اُس کے تازہ حکم نامے کے مثبت اثرات پیدا نہیں ہوں گے ۔ کوتوال کا خیال تھا کہ اِس سخت حکم نامے کے نتائج حاکم ِ وقت کیلئے مشکلات پیدا کرسکتے ہیں ۔ اُس نے اپنے اہلکار کو حکم دیا کہ اُس کی سواری تیار کی جائے تاکہ وہ فوری طور پر قلعے میں جا کر حاکمِ وقت سے ملاقات کرسکے،کوتوال کو یقین تھا کہ وہ اسے قائل کرنے میں کامیاب ہوجائے گا ۔محل کے دروازے پر مامور سپاہیوں نے کوتوال کودیکھ کر دروازے کھول دیے اور دربار میں اُس کی حاضری کی اطلاع دی گئی۔حاکم ِ وقت کو اُس کی آمد کی ذرہ برابر حیرانی نہ ہوئی ۔کوتوال نے اپنا مدعا بیان کیا جسے سن کربادشاہ کے چہرے پر عجیب سی مسکراہٹ آئی ، کوتوال سمجھا جیسے بادشاہ کو اُس کی بات پسند آئی ہے، مگر اُس کا خیال غلط ثابت ہوا۔بادشاہ نے اشارہ کیا، پردے کے پیچھے سے ایک شخص نمودار ہوا جس کے ہاتھ میں ویسا ہی حکم نامہ تھا جیسا کوتوال کے ہاتھ تھا، اِس سے پہلے کہ کوتوال کچھ سمجھ پاتا، اُس شخص نے نیام سے تلوار نکالی اور آن کی آن میں کوتوال کا سر قلم کردیا ۔جس حکم نامے کی تعمیل کوتوال نہ کرسکا ، وہ اُس شخص نے کردی۔ بادشاہ کے حکم کے تحت اب وہ شہر کا نیا کوتوال تھا ۔