پاکستان کے جوہری پروگرام پرآئی ایم ایف کے اعتراض کی حقیقت

پاکستان میں جاری سیاسی عدم استحکام اور سنگین معاشی بحران کے درمیان جہاں ایک جانب عالمی مالیاتی فنڈ آئی ایم ایف کے قرض پروگرام کے ممکنہ معاہدے اور اس کی تاخیر سے متعلق بحث جاری ہے وہیں حالیہ ہفتوں میں ان قیاس آرائیوں نے بھی جنم لیا ہے کہ آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کے ایٹمی اثاثوں سے متعلق شرائط عائد کی جا رہی ہیں۔

آئی ایم ایف کی تردید کے بعد وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اپنے گذشتہ بیان پر وضاحت دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’آئی ایم ایف یا کسی ملک نے پاکستان کی جوہری صلاحیت سے متعلق کوئی شرط نہیں رکھی ہے۔’میں نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر بیان ایک ساتھی سینیٹر کے جواب میں دیا تھا جس کا آئی ایم ایف سے جاری مذاکرات سے کوئی تعلق نہیں۔‘

اس سے قبل آئی ایم ایف کی نمائندہ برائے پاکستان ایستھر پریز رز نے کہا تھا کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے متعلق قیاس آرائیوں میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان کسی بھی معاہدے میں نیوکلیئر پروگرام کے بارے میں کوئی بات نہیں کی گئی۔ ’پاکستان سے مذاکرات صرف معاشی پالیسی پر ہو رہے ہیں۔‘

جبکہ اسحاق ڈار نے تسلیم کیا ہے کہ آئی ایم ایف سے سٹاف لیول معاہدے میں تاخیر کے پیچھے ’تکنیکی وجوہات‘ ہیں۔

خیال رہے کہ ان قیاس آرائیوں کی شروعات اس وقت ہوئی جب چھ مارچ کو پیپلز پارٹی کے رہنما رضا ربانی نے وزیر اعظم کے نام ایک خط لکھا جس میں آئی ایم ایف سے ممکنہ معاہدے میں تاخیر کی وجوہات، خطے میں چین سے تعلقات اور ملک میں بڑھتے دہشتگردی کے واقعات اور تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی پالیسی پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینے کا کہا گیا تھا۔

اس بحث کو تقویت اس وقت ملی جب چند روز قبل سینیٹ کے گولڈن جوبلی اجلاس کے دوران پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضا ربانی نے اس بارے میں تشویش ظاہر کی کہ پارلیمان کو آئی ایم ایف کی شرائط کے حوالے سے اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ انھوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے میں تاخیر ’غیر معمولی ہے‘ جو پاکستان کی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوا۔انھوں نے سوال کیا کہ کیا اس کی وجہ عالمی سطح پر پاکستان سے اس کردار کا تقاضہ کیا جا رہا ہے جو اس کی سکیورٹی ضروریات اور ترجیحات کے مطابق نہیں۔ ’کیا اس تاخیر کی وجہ پاکستان کے جوہری پروگرام پر یا چین کے ساتھ علاقائی تعلقات پر دباؤ ہے؟‘

اس کے جواب میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ ’پاکستان کے جوہری اور میزائل پروگرام پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ کسی کو حق نہیں کہ پاکستان کو بتائے کہ وہ کس رینج کے میزائل اور جوہری ہتھیار رکھ سکتا ہے۔‘انھوں نے کہا کہ ’ہم پاکستان کے ذمہ دار شہری ہیں اور ہم اپنے قومی مفاد کا تحفظ کریں گے۔‘

سینیٹ میں دونوں رہنماؤں کے درمیان اس موضوع پر بات کے بعد سوشل میڈیا اور پاکستان کے مقامی ذرائع ابلاغ میں پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے خاتمے یا اس پروگرام کی ممکنہ بندش کے قیاس آرائیوں نے زور پکڑا اور مختلف حلقوں میں اس پر تشویش پائی جانے لگی۔

پارلیمنٹ سے باہر اپوزیشن جماعت پاکستان تحریک انصاف کے نائب چیئرمین شاہ محمود قریشی نے بھی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے سینیٹ میں ایٹمی پروگرام سے متعلق بیان پر تشویش کا اظہار کیا۔

اس صورتحال پر 17 مارچ کو وزیر اعظم شہباز شریف نے ایک بیان میں کہا کہ ’پاکستان کے جوہری اور میزائل پروگرام کے بارے میں گمراہ کن قیاس آرائیاں افسوسناک ہیں کیونکہ ہمارا جوہری پروگرام قوم کے غیر متزلزل اتفاق کی نمائندگی کرتا ہے۔‘اپنی ٹویٹ میں پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان کا جوہری اور میزائل پروگرام مکمل طور پر محفوظ، فول پروف اور کسی بھی دباؤ کے بغیر ہے۔

جمعرات کو ہی وزیراعظم آفس اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ان دعوؤں کی تردید کی کہ ملک کے جوہری پروگرام پر کوئی سمجھوتہ ہونے جا رہا ہے۔وزیر اعظم آفس نے پاکستان کے جوہری پروگرام کو مکمل طور پر محفوظ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان کے جوہری اور میزائل پروگرام کے حوالے سے سوشل اور پرنٹ میڈیا میں گردش کرنے والے حالیہ تمام بیانات، پریس ریلیزز، سوالات اور مختلف دعوے غلط ہیں۔‘

آئی ایم ایف کی نمائندہ برائے پاکستان ایستھر پریز رز نے پاکستان کے ایٹمی اثاثوں سے متعلق کسی ممکنہ شرائط کی قیاس آرائیوں کو مسترد کیا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے متعلق قیاس آرائیوں میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔

گذشتہ روز امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل مائیکل کوریلا کا کہنا تھا کہ امریکہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے مطمئن ہے۔

پاکستان کے ایٹمی اثاثوں سے متعلق قیاس آرائیوں اور بحث کو جہاں ایک جانب ملک کی سالمیت سے جوڑا گیا وہیں ملک میں سیاسی حلقوں نے بھی اس حوالے سے پوائنٹ سکورنگ کرنے کا کوئی موقع جانے نہیں دیا۔

ان حالات میں آئی ایم ایف کی جانب سے ایسی کسی شرائط کی تردید کے بعد کیا اب یہ بحث ختم ہو جائے گی۔امریکہ میں پاکستان کی سابق سفیر ملیحہ لودھی کا کہنا ہے کہ ان قیاس آرائیوں اور بحث میں ابتدا سے ہی کوئی صداقت نہیں تھی اور پاکستان کے سنجیدہ حلقوں نے اسے کبھی اہمیت نہیں دی۔انھوں نے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ ایک حکومتی وزیر کا غیر ذمہ دارانہ بیان تھا جس میں انھوں نے آئی ایم ایف سے معاہدے میں تاخیر پر اپنی نااہلی چھپانے کے لیے دو بالکل مختلف ایشوز آئی ایم ایف کا پروگرام اور پاکستان کے میزائل اور جوہری پروگرام کو جوڑنے کی کوشش کی۔‘

ملیحہ لودھی نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا آئی ایم ایف پروگرام بہت پرانا ہے اور اس کو دہائیاں ہو چکی ہیں۔ میرے علم میں ایسا کوئی دباؤ نہیں جو کسی ملک نے پاکستان پر ڈالا ہو۔‘انھوں نے مزید کہا کہ آئی ایم ایف بھی ملک کے سٹرٹیجک معاملات پر بات نہیں کر سکتا۔ اور اس بحث کا کوئی جواز نہیں تھا۔ان کا کہنا تھا کہ ’میں سمجھتی ہو کہ اب اس بحث کو ختم ہو جانا چاہیے۔‘انھوں نے ان قیاس آرائیوں اور بیانات کو انتہائی غیر ذمہ دارانہ قرار دیا۔

ڈان نیوز کے پروگرام کی اینکر اور سنئیر صحافی عارفہ نور نے اس بارے میں کہا کہ ’یہ بحث حکومت نے ہی شروع کی تھی اور لگتا ہے کہ وزارت خزانہ کی بیک گراؤنڈ بریفنگز سے یہ بات اٹھنی شروع ہوئی جس پر رضا ربانی نے خط لکھ کر اور پھر سینیٹ میں سوال پوچھا اور یہ بحث آگے بڑھی۔‘ان کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف سے جواب آنے کے بعد امید ہے کہ یہ بات ختم ہو جائے گی کیونکہ جب وزارت خزانہ سے اس طرح کے کوئی اشارے نہیں آئیں گے تو سیاسی طور پر بھی اس کو اہمیت نہیں ملے گی۔

پی ٹی آئی جتھوں کے حملے،تفتیش کیلئے جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ

Back to top button