پوری گلوان وادی ہمارے دائرہ اختیار میں ہے

چین نے اعلان کیا ہے کہ پوری گلوان وادی ہمارے دائرہ اختیار میں ہے اس وقت کوئی بھارتی فوجی ہمارے قبضے میں نہیں ہے چینی وزارت خارجہ کے ترجمان لیجیان ژاﺅ نے کہا جہاں تک میرا علم ہے اس وقت چین کی تحویل میں کوئی بھارتی فوجی موجود نہیں ہے، انہوں نے بھارتی فوجیوں کی نظربندی کی تصدیق نہیں کی جب کہ بھارتی ذرائع ابلاغ نے الزام عائد کیا کہ 15 اور 16 جون کی درمیانی شب کو ہونے والی پرتشدد جھڑپ کے بعد چین نے 4بھارتی افسروں اور 6 جوانوں کو اپنے قبضے میں لے لیا تھا، جنہیں 18جون کی شام کو رہا کیا گیا ہے۔
لداخ میں چین او ربھارت کے فوجی تصادم میں بھارت کے 20 فوجی مارے گئے، جن میں ایک کرنل بھی شامل تھا، جب چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان سے بھارت میں چین کے خلاف ہونے والے احتجاج اور وادی گلوان میں پیشرفت کے بعد چینی اشیاء کے بائیکاٹ کی اپیل کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ گلوان میں جو کچھ ہوا اس کی ذمہ دار بھارت کی فوج ہے۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ہی ملک فوجی اور سفارتی چینلز کے ذریعے بات چیت کر رہے ہیں اور کشیدگی کو کم کرنے پر زور دے رہے ہیں ترجمان نے کہا چین بھارت کے ساتھ تعلقات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور امید کرتا ہے کہ بھارت دور رس ترقی کےلیے دوطرفہ تعلقات کو بہتر بنانے کےلیے چین کے ساتھ مل کر کام کرے گا، بھارت اور چین کی سرحد کے مغربی حصے میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) کے ساتھ پوری گلوان وادی چین کے حصے میں آتی ہے کئی سالوں سے چین کے فوجی اس علاقے میں گشت کر رہے ہیں۔
رواں سال اپریل کے بعد سے لائن آف ایکچول کنٹرول پر واقع وادی گلوان میں بھارتی فوج نے یک طرفہ طور پر سڑکیں پل اور دیگر ٹھکانے بنائے ہیں، چین نے اس کے متعلق متعدد بار شکایت کی لیکن بھارت نے مزید اشتعال انگیز کارروائی کی اور ایل اے سی کو عبور کیا۔ 6 مئی کی صبح ایل اے سی کو عبور کرنے والے سرحد پر تعینات بھارتی فوجیوں نے، جو رات کے وقت ایل اے سی کو عبور کرکے چین کی حدود میں داخل ہوئے تھے، بیریکیڈز لگائے اور مورچے بنائے، جس کی وجہ سے سرحد کے ساتھ چینی فوجیوں کی گشت میں رکاوٹ پیدا ہوئی، بھارتی فوجیوں نے دانستہ طور پر اشتعال انگیز کارروائیاں کیں اور انتظامیہ اور کنٹرول کی حثیت میں تبدیلی کا موجب ہوئے۔
چینی فوجی اس صورت حال سے نمٹنے اور زمین پر اپنے نظم و نسق کے استحکام کےلیے ضروری اقدامات کرنے پر مجبور ہوئے، کشیدگی کو کم کرنے کےلیے بھارت اور چین نے فوجی اور سفارتی چینلز سے بات چیت کی چین کے سخت مطالبات کے جواب میں بھارت ایل اے سی کو عبور کرنے والے اپنے فوجیوں کو واپس بلانے اور تعمیر کردہ ٹھکانوں کو مسمار کرنے پر راضی ہوگیا بھارت نے ایسا کیا بھی ہے۔
چھ جون کو فریقین نے کمانڈر سطح پر بات چیت کی اور تناﺅ کو کم کرنے پر اتفاق کیا بھارت نے اس بات پر اتفاق کیا کہ وہ دریائے گلوان کو عبور نہیں کرے گا اور دونوں فریقین کمانڈروں کے مابین ملاقاتوں کے ذریعے مرحلہ وار طور پر فوجی دستے واپس بلائیں گے۔ لیکن 15 جون کی رات سرحد پر موجود بھارت فوجیوں نے کمانڈر سطح کے اجلاس میں معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک بار پھر ایل اے سی کو عبور کیا جب وادی گلوان میں تناﺅ ختم ہورہا تھا اس وقت انہوں نے جان بوجھ کر اشتعال انگیزی کا مظاہرہ کیا‘چینی فوجی اور افسر جو بات چیت کےلیے ان کے پاس گئے تھے انہوں نے ان پر پرتشدد حملہ کیا، اور فوجی مارے گئے۔
بھارتی فوج کی اس جسارت نے سرحدی علاقے کے استحکام کو کمزور کردیا چینی فوجیوں کی زندگی کو خطرے میں ڈالا ہے، سرحدی تنازع پر دونوں فریقوں کے مابین معاہدے کی خلاف ورزی کی اور بین الاقوامی تعلقات کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی کی ہے۔ چین نے بھارت کے سامنے اپنا موقف رکھا ہے اور اس کی سخت مخالفت کی ہے۔ بھارت کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر کے ساتھ ٹیلی فون پر گفتگو میں وزیر خارجہ وانگ یی نے بھارت سے کہا ہے کہ وہ اس واقعے کی سنجیدگی سے تحقیقات کرے، ذمہ داروں کو سزا دے اور سرحد پر موجود بھارت فوجیوں کو ڈسپلن میں رکھے اور فوری طور پر اشتعال انگیزی کی کارروائیاں بند کی جائیں تاکہ اس طرح کے واقعات دوبارہ پیش نہ آئیں زمینی حالات کو سدھارنے کےلیے جلد ہی کمانڈروں کے مابین دوسرا اجلاس بھی ہوگا۔
وادی گلوان میں تصادم کے بعد پیدا ہونے والی سنگین صورت حال سے نمٹنے کےلیے دونوں فریقین انصاف پسندی کے ساتھ کام کریں گے، کمانڈر سطح کے اجلاس میں طے پانے والے معاہدے پر عمل کریں گے اور جلد از جلد صورت حال کو معمول پر لے کر آئیں گے اور اب تک ہونے والے معاہدے کے تحت سرحدی خطے میں امن قائم کریں گے۔ بھارت چین سرحد پر حالیہ واقعات کے پس منظر میں وزیر اعظم نریندر مودی نے جمعہ کو منعقدہ کل جماعتی اجلاس میں کہا کہ نہ کوئی بھی ہمارے علاقے میں داخل ہوا ہے اور نہ ہی کسی پوسٹ پر قبضہ کیا گیا ہے مودی نے کہا اب تک جن سے کوئی بھی سوال نہیں کرتا تھا، جسے کوئی نہیں روکتا تھا، اب ہمارے فوجی انہیں کئی سیکٹرز میں روک رہے ہیں۔