اکثریت ملنے کے بعد آئینی بینچ کی جگہ آئینی عدالت کا منصوبہ بحال

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے قومی اسمبلی میں نئی پارٹی پوزیشن جاری ہونے کے بعد حکومتی اتحاد کو اپنی من مرضی کی آئینی ترامیم کرنے کے لیے دو تہائی اکثریت حاصل ہو گئی ہے۔ ایسے میں اب حکومتی حلقوں سے یہ اطلاع آ رہی ہے کہ دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے بعد اب وفاقی حکومت سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کی جگہ ایک آئینی عدالت قائم کرنے کا اپنا اوریجنل منصوبہ بحال کرنے جا رہی ہے۔ یاد رہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کی اتحادی حکومت اصل میں ایک آئینی عدالت قائم کرنا چاہتی تھی لیکن مطلوبہ پارلیمانی نمبرز پورے نہ ہونے کی وجہ سے اسے آئینی بینچ بنانے پر اکتفا کرنا پڑا تھا۔ اب جب کہ حکومتی اتحاد کو دو تہائی اکثریت حاصل ہو گئی ہے لہٰذا آئینی عدالت بنانے کے منصوبے پر بھی کام شروع ہونے جا رہا ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے نئی پارٹی پوزیشن جاری ہونے کے بعد قومی اسمبلی میں حکمران اتحاد کی نشستوں کی تعداد 235 ہو گئی ہے جن میں مسلم لیگ (ن) 13 مخصوص نشستوں کی بحالی کے بعد 123 پر پہنچ گئی ہے۔ پیپلزپارٹی کی 4 سیٹوں کی بحالی کے بعد قومی اسمبلی میں اس کی ٹوٹل سیٹیں 74 ہو گئی ہیں، ایم کیو ایم کی سیٹوں کی تعداد 22 ہو گئی ہے، مسلم لیگ قاف کی 5، استحکام پاکستان پارٹی کی 4، مسلم لیگ ( ضیا) کی 1، بلوچستان عوامی پارٹی1، نیشنل پارٹی1، آزاد اراکین کی تعداد اب بھی 4 ہے۔
دوسری جانب اپوزیشن جماعتوں کے ارکان کی تعداد 98 رہ گئی جن میں سنی اتحاد کونسل کی 80 سیٹیں ہیں، تحریک انصاف کے حامی آزاد اراکین کی نشستوں کی تعداد 5 ہے، جمعیت علمائے اسلام کی 2 سیٹوں کی بحالی کے بعد ٹوٹل سیٹیں 10 ہو گئی ہیں، بلوچستان نیشنل پارٹی کی 1، مجلس وحدت مسلمین کی 1، اور پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے پاس بھی ایک سیٹ ہے ۔
کرپٹو پر حکومتی پالیسی معاشی خودکشی کے مترادف کیوں؟
یاد رہے کہ قومی اسمبلی کے کل ارکان کی تعداد 336 ہوتی ہے۔ موجودہ ارکان کی تعداد 233 ہے۔ معطل رکن ایک ہے اور مخصوص خالی نشستیں 2 ہیں۔ اسمبلی میں نمبرز گیم تبدیل کرنے والے الیکشن کمیشن کے نوٹیفیکیشن کے مطابق اسمبلی میں مخصوص نشستوں کی بحالی کے بعد مسلم لیگ (ن) کو قومی اسمبلی میں 13 نشستیں ملیں جس کے بعد اسکی ٹوٹل سیٹیں 123 ہو گئی ہیں۔
اسی طرح، پیپلزپارٹی کو 4 مخصوص نشستیں ملیں جس کے بعد قومی اسمبلی میں اسکی کل سیٹوں کی تعداد 74 ہوگئی جب کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کو 2 نشستیں ملنے سے اسکی سیٹیں 10 ہو گئی ہیں۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق مخصوص نشستوں کی بحالی سے حکومتی اتحاد کو قانون سازی کے لیے مزید تقویت ملی ہے اور وہ مولانا فضل الرحمن کے بغیر اپنی مرضی کی آئینی ترامیم کرنے کے قابل ہو گئی ہے۔ یاد رہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے وقت حکومت دراصل ایک آئینی عدالت قائم کرنا چاہتی تھی لیکن مطلوبہ اکثریت نہ ہونے کی وجہ سے اسے مولانا فضل الرحمن کے فارمولے پر عمل کرنا پڑا جسکے تحت ایک آئینی عدالت کی بجائے آئینی بینچ بنائے گئے تھے۔