پیپلز پارٹی الیکشن مہم میں مسلم لیگ نون کی کمپین کرنے لگی؟

مسلم لیگ نواز جان گئی ہے کہ پیپلزپارٹی ن لیگ مخالف بیانیے پر ملک بھر میں الیکشن لڑنے کی تیاری کر رہی ہے۔ وہ تحریک انصاف اور اس کے چیئرمین پر تنقید نہیں کریں گے بلکہ ساری تنقید ن لیگ اور شریف خاندان پر کی جائے گی۔ پیپلزپارٹی کی کوشش ہو گی کہ وہ ملک بھر میں تحریک انصاف کے ووٹر کی ہمدردی حاصل کر کے اس کو اپنی طرف متوجہ کر لے۔ اس لیے تحریک انصاف کے حامی کو ناراض نہیں کیا جائے گا۔ بلکہ ن لیگ مخالف ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی. ن لیگ پیپلزپارٹی کے اس بیانیہ پر بہت خوش ہے۔ اگر پیپلزپارٹی ملک بھر میں یہ ماحول بنا دے کہ نواز شریف آرہا ہے تو ن لیگ کے لیے اس سے اچھی کیمپین اور کیا ہو سکتی ہے. ان خیالات کا اظہار سینئر صحافی مزمل سہروردی نے اپنے ایک کالم میں کیا ہے. وہ لکھتے ہیں کہ بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نون کے درمیان سیاسی اختلاف جعلی ہے۔ یہ اختلاف صرف ووٹر کو دکھانے کے لیے ہے۔ ورنہ اندر سے دونوں سیاسی جماعتیں ایک ہیں۔ اس وقت ملک میں انتخابات ہیں۔ اس لیے اس انتخابی ضرورت کو پیش نظر رکھتے ہوئے دونوں جماعتیں سیاسی محاذ آرائی کا ماحول بنا رہی ہیں۔ اگر ایسا ہی ہے تو جس طرح پیپلزپارٹی ن لیگ پر لاڈلا ہونے کے الزامات لگا رہی ہے ایسے ہی جواب میں ن لیگ بھی پیپلز پارٹی پر الزامات لگائے تا کہ محاذ آرائی کا مکمل ماحول تو بن سکے۔ ووٹر کی اختلاف کی پیاس تو بجھ سکے۔ لیکن جواب میں ن لیگ تو خاموش ہے۔ وہ تو جواب میں کچھ کہہ ہی نہیں رہے۔ بلکہ جب میڈیا ان سے سوال کرتا ہے تو وہ معاملے کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ تو آگ پر پانی ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔۔ اس لیے جن لوگوں کی یہ رائے ہے کہ ایسا دونوں جماعتیں مل کر کر رہی ہیں۔ درست نہیں۔ یہ ابھی تک پیپلزپارٹی کی یک طرفہ کوشش ہے۔ پیپلزپارٹی کو یہ گلہ تھا کہ ن لیگ نے اپنے لیے اقتدار کے راستے ہموارکر لیے ہیں۔ اس سے پہلےپیپلزپارٹی کا خیال تھا کہ اس نے اگلے اقتدار کے لیے گیم سیٹ کر لی ہوئی ہے۔ اور اب اس کی باری ہے۔ لیکن انھیں علم نہیں ہو سکا کب وہ اس گیم سے آئوٹ ہو گئے۔ وہ میٖڈیا میں نعرے لگاتے رہے کہ اگلا وزیر اعظم بلاول ہے۔ اور انھیں اندازہ ہی نہیں ہو سکا کہ دوسری طرف نواز شریف کی واپسی کے لیے سب معاملات حل ہو گئے ہیں۔ وہ سوچتے رہے کہ اب قبولیت کی معراج پر اب وہ ہیں۔ لیکن انھیں اندازہ ہی نہیں ہو سکا کہ وہ اب بھی دوسرے درجے پر ہیں۔ ن لیگ ان سے آگے ہے۔ وہ ن لیگ کو گیم سے آئوٹ کر چکے تھے۔ انھیں اندازہ ہی نہیں تھا کہ گیم اب بھی ن لیگ کے ہاتھ میں ہے۔ مزمل سہروردی کہتے ہیں کہ پیپلزپارٹی کا خیال تھا کہ وہ بلوچستان کی بادشاہ ہے۔ اقتدار کے لیے بلوچستان تو ان کی جیب میں ہے۔ آصف زرداری جو خود کو بلوچ کہتے ہیں۔ ان کے مطابق سب بلوچ ان کے ساتھ ہیں۔ اس لیے پیپلز پارٹی کی رائے میں جب انتخابات کا کھیل شروع ہونا تھا تو بلوچستان سے سب کی پہلی اور آخری چوائس پیپلز پارٹی ہی ہونی تھی۔ سب اتحاد پیپلزپارٹی کے ساتھ ہی بننے تھے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ بلوچستان کے سیاسی سرداروں نے نواز شریف کے ساتھ جانے کا فیصلہ کیا۔ پیپلزپارٹی نے جس کو شامل ہونے کی دعوت دی اس نے صاف انکار کر دیا۔ اس انکار نے پیپلزپارٹی کو شدید سیاسی صدمے سے دوچار کیا۔ جس کا اندازہ ان کی گفتگو میں ہوتا ہے۔ اسی طرح ان کا خیال تھا پنجاب میں ن لیگ ان کو سیٹیں دینے پر مجبور ہو جائے گی۔ لیکن ن لیگ نے ایک بھی سیٹ پر ایڈجسٹمنٹ کرنے سے انکار کر دیا۔ پھر پیپلز پارٹی کا خیال تھا کہ تحریک انصاف سے لوگ چھوڑ کر پنجاب اور کے پی میں پیپلز پارٹی میں آئیں گے ایسا بھی نہیں ہوا اور دونوں صوبوں میں تحریک انصاف چھوڑنے والوں نے الگ نئی سیاسی جماعتیں بنا لی ہیں۔ جس کی ذمے دار بھی پیپلز پارٹی ن لیگ کو ہی سمجھتی ہے مزمل سہروردی کا کہنا ہے کہ دوسری طرف ن لیگ کا موقف ہے کہ وہ کسی کو زبردستی پیپلزپارٹی میں شامل ہونے پر مجبور نہیں کر سکتے۔ اگر لوگ نئی سیاسی جماعت میں گئے ہیں تو ن لیگ سے کیسا گلہ ہے۔ لیکن پیپلزپارٹی کا موقف ہے کہ ن لیگ نے ان سب کو روکا ہے۔ اس صورتحال میں پیپلزپارٹی نے نواز شریف کو لاڈلا اور ن لیگ کو کنگز پارٹی کہنا شروع کر دیا۔ خبر یہی ہے کہ ن لیگ پیپلزپارٹی کے اس بیانیہ پر بہت خوش ہے۔ اور وہ چاہتے ہیں کہ پیپلزپارٹی اس کو جاری رکھے۔ اسی لیے وہ جواب نہیں دینا چاہتے بلکہ چاہتے ہیں کہ پیپلزپارٹی اس کو اپنی سیاسی فتح سمجھتے ہوئے جاری رکھے۔ ن لیگ کی رائے ہے کہ وہ خود توووٹر کو نہیں کہہ سکتے کہ اگلی باری ان کی ہے اور وہ اقتدار میں آرہے ہیں ان کی گیم سیٹ ہو گئی ہے۔ اس لیے اگر پیپلزپارٹی ان کے لیے یہ کام کر رہی ہے تو لڑنے کے بجائے شکریہ ادا کرنا چاہیے۔۔ اگر پیپلزپارٹی کے لوگ ہر ٹاک شو ہر پریس کانفرنس میں کہیں کہ ن لیگ آرہی ہے تو ان کے لیے اس سے اچھی کیمپین کیا ہو سکتی ہے۔ اسی سوچ کی وجہ سے پیپلزپارٹی جس لڑائی کی توقع رہی تھی وہ نہیں ہوئی۔ مزمل سہروردی کہتے ہیں کہ پیپلزپارٹی ن لیگ مخالف بیانیہ پر ملک بھر میں الیکشن لڑنے کی تیاری کر رہی ہے تو ن لیگ نے تحریک انصاف مخالف بیانیہ پر الیکشن لڑنا ہے۔ ان کی تمام توجہ تحریک انصاف پر ہوگی۔ ۔ ن لیگ نو مئی کی بات کرتی ہے جب کہ پیپلزپارٹی اب نو مئی کی بات نہیں کرتی۔ ن لیگ توشہ خانہ اور فرح گوگی کی بات کرتی ہے پیپلزپارٹی توشہ خانہ اور فرح گوگی کی بات نہیں کرتی۔ ن لیگ القادر ٹرسٹ کی بات کرتی ہے۔ پیپلزپارٹی نہیں کرتی۔ ن لیگ سائفر کی بات کرتی ہے پیپلز پارٹی نہیں کرتی۔ اس لیے اس فرق کو سمجھیں گے تو بات سمجھ آجائے گی۔ لیکن پیپلز پارٹی کی یہ پالیسی آگے جا کر اس کے لیے مزید مسائل پیدا کرے گی۔ اسی لیے نظر آرہا کہ اب پیپلزپارٹی خود ہی پیچھے ہٹ رہی ہے۔ انھیں اندازہ ہے کہ ان کی اس پالیسی کی ایک سیاسی قیمت ہے جو وہ ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ اس لیے ہمیں پیپلزپارٹی بند گلی میں کھڑی نظر آتی ہے۔

Back to top button