صدر ٹرمپ اور جنرل عاصم کی ملاقات نے انڈیا میں کھلبلی مچا دی

حالیہ چار روزہ مختصر جنگ میں انڈیا کو شکست سے دوچار کر کے فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی پانے والے جنرل عاصم منیر کی امریکی صدر ٹرمپ سے وائٹ ہاؤس ہونے والی ملاقات نے بھارت میں کھلبلی مچا دی ہے۔ یاد رہے کہ پاک بھارت جنگ کے بعد صدر ٹرمپ نے نہ تو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور نہ ہی پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف سے کوئی ملاقات کی۔ چنانچہ اس ملاقات کو انتہائی اہمیت کا حامل قرار دیا جا رہا ہے۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جنرل عاصم منیر کی صدر ٹرمپ سے ملاقات بھارت کے لیے دوسرا بڑا سیٹ بیک ہے۔ انڈیا کے لیے پہلا سیٹ بیک تب ہوا جب صدر ٹرمپ نے پاکستان اور بھارت کے مابین سیز فائر کرواتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اپنی خدمات پیش کر دیں، حالانکہ اب تو اقوام متحدہ بھی مسئلہ کشمیر کو فراموش کر چکا ہے۔ ایسے میں صدر ٹرمپ کی جنرل عاصم منیر سے ملاقات کو نریندر مودی حکومت کے لیے ایک گرم آلو قرار دیا جا رہا ہے۔

صدر ٹرمپ سے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی ملاقات وائٹ ہاؤس میں ظہرانے پر کیبنٹ روم میں ہوئی، اس ملاقات میں صحافیوں کو آنے کی اجازت نہیں تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ دونوں رہنماؤں نے مسئلہ کشمیر اور ایران اور اسرائیل جنگ سمیت اہم ترین بین الاقوامی معاملات پر بھی گفتگو کی۔ ٹرمپ اور عاصم منیر کی ملاقات سے دونوں ممالک کے مابین سٹریٹیجک اور سفارتی تعلقات مزید بہتر ہونے کا امکان ہے۔ اس ملاقات سے پہلے آرمی چیف نے واشنگٹن میں رہنے والے امریکن پاکستانیوں کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدر ٹرمپ کی جانب سے مسئلہ کشمیر اجاگر کرنے کو ایک مثبت پیش رفت قرار دیا تھا۔

اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف نے کہا تھا کہ آئندہ چند روز میں کئی اہم واقعات رونما ہوں گے، جنرل عاصم منیر اور ٹرمپ کی ملاقات ایک ایسے وقت ہوئی جب صدر ٹرمپ ایران اور اسرائیل کی جنگ کی وجہ سے کینیڈا کا دورہ مختصر کرکے واپس واشنگٹن پہنچ گے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو عہدہ سنبھالنے کے بعد امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پاکستان کی کسی بھی اعلیٰ ترین شخصیت سے یہ پہلی ملاقات ہے۔ یہ ملاقات اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ پاکستان نے صدر ٹرمپ کی جانب سے پاک بھارت جنگ بندی کا خیر مقدم کیا ہے اور زور دیا ہے کہ وہ اپنے دور صدارت میں مسئلہ کشمیر کو حل کرائیں۔

فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر نے واشنگٹن میں پاکستانی کمیونٹی سے خطاب کرتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ امریکا، یوکرین سے محض 500 ارب ڈالرز کے معدنی دھاتوں کا معاہدہ کرنا چاہتا ہے، جبکہ ہمارے پاس ایک کھرب ڈالرز کے ایسے ذخائر موجود ہیں، لہذا اگر امریکہ پاکستان میں سرمایہ کاری کرے گا تو ہر سال 10 سے 15 ارب ڈالرز کا فائدہ حاصل کرسکتا ہے اور یہ سلسلہ 100 سال تک جاری رہے گا۔ انکا کہنا تھا کہ پاکستان چاہتا ہے معدنی دھاتوں کی پراسسینگ پاکستان میں ہو تاکہ وہاں روزگار کے مواقع بڑھیں۔ عاصم منیر نے یہ بھی بتایا تھا کہ پاکستان کرپٹو کونسل اور امریکن کرپٹو کونسل کا معاہدہ ہونے والا ہے جس کے بعد پاکستان کرپٹو مائننگ میں کردار ادا کرے گا، یہی نہیں بلکہ امریکہ کی مدد سے پاکستان میں آرٹی فیشل انٹیلی جنس کے ڈیٹا سینٹرز بھی کھولے جائیں گے۔

یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ دورہ امریکہ کے دوران پاکستانی فوجی سربراہ کی امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو اور وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ سے بھی ملاقاتیں ہونے والی ہیں۔ ان۔ملاقاتوں کو اسلام آباد میں پاکستان کی ایک بڑی سفارتی جیت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ صدر ٹرمپ سے اپنی ملاقات سے پہلے فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے بھارت پر زور دیا تھا کہ وہ خطے پر اپنا تسلط مسلط کرنے کی بجائے ایک ”مہذب قوم‘‘ کے طور پر پاکستان کے ساتھ بات چیت کرے۔

پاکستانی نژاد امریکن کمیونٹی کے ارکان سے بات کرتے ہوئے جنرل عاصم منیر نے بھارت کے ان دعوؤں کو سختی سے مسترد کیا کہ پہلگام میں دہشت گردانہ حملے کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ تھا۔ انہوں نے اسے سرحد پار سے جارحیت کا ایک بہانہ قرار دیا۔ انہوں نے بھارت پر الزام لگایا کہ وہ بین الاقوامی سرحدوں کی خلاف ورزی کا ایک خطرناک "نیا معمول” قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جسے پاکستان نے سختی سے مسترد کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ "ہم اس بے عزتی کو قبول کرنے کے بجائے شہادت کو گلے لگانا پسند کریں گے۔”

کیا بھٹو رجیم چینج کی طرح ایرانی رجیم بھی بدل جائے گا ؟

یاد رہے کہ گزشتہ ماہ بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک مختصر، تاہم ہلاکت خیز، لڑائی کے بعد دونوں ملکوں نے دنیا کو اپنے موقف سے آگاہ کرنے کے لیے مختلف ممالک کو اپنے اعلی سطحی وفود روانہ کیے تھے۔ پاکستان کی جانب سے جاری سفارتی مقابلے میں جنرل عاصم منیر کی امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ ملاقات ایک قابل ذکر کامیابی کی نشان دہی کرتی ہے۔

Back to top button