جوڈیشل کمیشن کی کارروائی پبلک کرنے کی تجویز ایک بار پھر مسترد

چیف جسٹس آف پاکستان، جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں ہونے والے جوڈیشل کمیشن آف پاکستان (جے سی پی) کے حالیہ اجلاس میں کمیشن کی کارروائی کو عام کرنے کی تجویز ایک بار پھر مسترد کر دی گئی ہے۔
ذرائع کے مطابق، 25 نومبر 2024 کو ہونے والے اجلاس میں سپریم کورٹ کے سینئر جج، جسٹس منصور علی شاہ نے تجویز پیش کی تھی کہ جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کے منٹس (کارروائی کا ریکارڈ) عوام کے لیے جاری کیے جائیں، تاہم یہ تجویز اکثریتی ووٹوں سے مسترد کر دی گئی۔
بعدازاں 25 جون 2025 کو بھی جسٹس منصور علی شاہ نے شفافیت کو فروغ دینے کے لیے یہی تجویز دوبارہ پیش کی اور سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے دور کا حوالہ دیا، جب سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023 کے تحت تین رکنی ججوں کی کمیٹی کے منٹس باقاعدگی سے سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر جاری کیے جاتے تھے۔
25 نومبر کو ہونے والا اجلاس سندھ ہائی کورٹ کے لیے 9 رکنی آئینی بینچ کی منظوری کے لیے بلایا گیا تھا، جو 4 کے مقابلے میں 11 ووٹوں سے منظور ہوا۔ اجلاس میں پی ٹی آئی کے نمائندے—قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف عمر ایوب اور سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر شبلی فراز—غیر حاضر رہے۔ بتایا گیا کہ ان کے موبائل فون بند تھے، جس کے باعث جے سی پی نے تقریباً دو گھنٹے تک انتظار کے بعد اجلاس آگے بڑھایا۔ بعد میں پارٹی کی جانب سے بیرسٹر گوہر علی خان اور سینیٹر بیرسٹر علی ظفر کو ان کی جگہ نامزد کیا گیا۔
اجلاس میں جسٹس منصور علی شاہ نے آئین کے آرٹیکل 19-اے کا حوالہ دیتے ہوئے زور دیا کہ عدالتی تقرریوں جیسے عوامی اہمیت کے حامل معاملات میں شفافیت ضروری ہے تاکہ عدلیہ پر عوامی اعتماد برقرار رکھا جا سکے۔
وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ نے جواب دیا کہ ایسے معاملات میں فیصلہ جوڈیشل کمیشن کے تمام اراکین کی اجتماعی دانش سے ہونا چاہیے۔ جبکہ اٹارنی جنرل منصور اعوان نے نشاندہی کی کہ جوڈیشل کمیشن کے اجلاسوں کی ان کیمرہ نوعیت 2010 کے قواعد کے تحت متعین ہے، اور کسی بھی تبدیلی کے لیے باقاعدہ قانونی ترمیم ضروری ہوگی۔
پی ٹی آئی اور عمران خان میں فیصلہ سازی کا فقدان ہے : عرفان صدیقی
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے بھی واضح کیا کہ موجودہ قانونی ڈھانچہ اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ کمیشن کی کارروائی پبلک کی جائے، لیکن اس کے باوجود انہوں نے تجویز کو ووٹنگ کے لیے پیش کیا۔ تجویز کو 11 اراکین نے مسترد کر دیا، جب کہ جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر اور ایک اور رکن نے اس کی حمایت کی۔ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس شفیع صدیقی اجلاس میں شریک نہیں تھے۔
بعد ازاں، جسٹس منصور علی شاہ نے ایک تحریری بیان میں اپنی تشویش کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ کمیشن کے گرد موجود "دھندلا پن” نہ تو صحت مند ہے، اور نہ ہی آئینی اقدار کے مطابق ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ عدالتی تقرریاں عوامی اہمیت کی حامل ہیں اور ان میں شفافیت کو یقینی بنانا ضروری ہے۔