بیرسٹر گوہر کے خلاف اندرونی بغاوت کے بعد PTI کےبکھرنے کا امکان

پی ٹی آئی کے اندرونی اختلافات میں ایک بار پھر شدت آگئی ہے۔ جہاں ایک طرف کارکنان نے اپنے ایم پی ایز اور ایم این ایز کو عمران خان کی رہائی کیلئے کوششیں نہ کرنے کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف سوشل میڈ یا پر مہم چلانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔وہیں دوسری جانب پارٹی رہنما عہدے اور مراعات سمیٹنے کے چکر میں ایک دوسرے پر چڑھائی کرتے نظر آتی ہے جبکہ تازہ اطلاعات کے مطابق پی ٹی آئی کے موجودہ چئیرمین بیرسٹر گوہر خان بھی یوتھیوں کے نشانے پر آ گئے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی پارلیمانی پارٹی کے کچھ ارکان نے بیرسٹر گوہر خان کے خلاف بانی پی ٹی آئی عمران خان کو خط لکھنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

ذرائع کے مطابق پارلیمانی پارٹی ارکان پارٹی چیئرمین بیرسٹر گوہر کے خلاف عمران خان کو خط لکھیں گے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پارلیمانی رہنماؤں نے بیرسٹر گوہر پر پارٹی مفادات کے برعکس فیصلوں کا الزام لگاتے ہوئے پی ٹی آئی چئیرمین کے پارلیمانی امور پر کئے جانے فیصلوں پر تحفظات کا اظہار کر دیا ہے۔

ذرائع نے بتایاکہ پارٹی اجلاس میں بیرسٹر گوہر کے کنڈکٹ بارے تحریک انصاف کے ایم این اے ڈاکٹر امجد خان نے سوالات اٹھائے، ڈاکٹر امجد خان نے صحت کی مفت سہولیات کا بل قائمہ کمیٹی میں پیش کیاتھا۔ ارکان نے الزام لگایا کہ بیرسٹر گوہر نے پارٹی کے رکن کے بل کی مخالفت کی.ذرائع کے مطابق ڈاکٹر امجد نے پنجاب اور کے پی اسمبلی سے قرارداد پاس کروانے کی کوشش کی اور آصفہ بھٹو زرداری سمیت ن لیگ قیادت سے بھی بل پر رابطہ کیا تھا تاہم امجد خان نے الزام عائد کیا کہ میرا بل تیار ہوا لیکن پارٹی چیئرمین بیرسٹر گوہر  نے بل کے خلاف آواز بلند کی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ بیرسٹر گوہر خانکے فیصلوں بارے پی ٹی آئی رہنما چنگیز خان کاکڑ نے بھی تحفظات کا اظہار کیا اور الزام لگایاکہ میرا فیصل آباد میں ہائیکورٹ کا بل تھا جس کی پی ٹی آئی چئیرمین بیرسٹر گوہر خان نے ہی مخالفت کی، پارٹی کے رکن بل لاتے ہیں اوربیرسٹر گوہر اس کی مخالفت کر دیتے ہیں۔

ذرائع کے مطابق بیرسٹر گوہر خان کی جانب سے پارٹی رہنماؤں کو مسلسل زد پہنچانے اورپارٹی چئیرمین کی جانب سے مختلف امور بارے پارلیمانی رہنماؤں سےمشاورت نہ کرنے پر بانی پی ٹی آئی کو خط لکھ کر حالات سے آگاہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ دوسری جانب پی ٹی آئی اراکین اسمبلی کے پیش کردہ بلز کی مخالفت بارے بیرسٹر گوہر کا کہنا تھاکہ پارلیمانی پارٹی کے چند ارکان کے تحفظات درست نہیں، پرائیویٹ ممبر بل آئے تو ذاتی رائے دی جاتی ہے، ان معاملات پر قانون سازی کی ضرورت نہیں۔انہوں نے کہا کہ پرائیویٹ ممبر بل پر مرضی کے ووٹ دیتے ہیں، لطیف کھوسہ اور میں نے ذاتی طور پر اراکین کے پرائیویٹ بلز کی مخالفت کی تھی۔

دوسری جانب پی ٹی آئی ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان کے جیل میں ہونے کی وجہ سے انہیں باہر کے حالات اور پارٹی کے حوالے سے صحیح آگاہ نہیں کیا جارہا۔ جس کی وجہ سے پارٹی کے پرانے رہنماؤں میں اشتعال غصہ پایا جاتا ہے۔ قوی امکان ہے کہ پارٹی کے بعض ایم این ایز کچھ عرصہ بعد بالکل خاموشی اختیار کر لیں گے۔ ذرائع کے مطابق اس وقت پارٹی سے مخلص رہنماؤں کو سائیڈ لائن کر دیا گیا ہے اور پارٹی پر وکلا کا کنٹرول مضبوط ہورہا ہے۔ جس کی وجہ سے شہریار آفریدی، شاندانہ گلزار، شیر افضل مروت، علی محمد خان، اسد قیصر، زرتاج گل ، مراد سعید اور وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور سمیت اہم رہنماؤں میں تشویش پائی جاتی ہے۔ تاہم دوسری جانب پی ٹی آئی ورکرز کا کہنا ہے کہ عمران خان کی رہائی کیلئے وکلا نے جو وعدے کیے تھے اور جو کچھ بتایا تھا۔ اس پر 5 فیصد بھی عمل نہیں ہو سکا۔ جن وکلا کو پارٹی میں عہدے دیئے گئے۔ انہیں کوئی نہیں جانتا تھا لیکن پی ٹی آئی میں عہدے ملنے کے بعد نہ صرف ان کے کلائنٹس میں اضافہ ہوا اور وہ کروڑوں میں کھیل رہے ہیں۔ بلکہ عمران خان کی وجہ سے وہ ٹی وی شوز میں بھی نظر آرہے ہیں۔ ذرائع کے بقول تین ایسے وکیل بھائی ہیں۔ جن کے پاس کام نہیں ہوتا تھا۔ لیکن اب ان کے پاس پارٹی رہنماؤں کیلئے وقت نہیں اور تینوں ٹی وی شوز میں شرکت کر رہے ہیں۔ جبکہ پارٹی کیلئے ان کا کام نہ ہونے کے برابر ہے۔ پہلے ان وکلا بھائیوں نے کارکنوں کے کیسز کی مفت میں پیروی کر کے عمران خان کا قرب حاصل کیا اور اب کارکنوں کے کیسوں کے بارے میں فیس مانگی جارہی ہے ۔ پارٹی کے اندران کی کار کردگی پر سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق سابق وزیر قانون بابر اعوان بھی صرف شریف خاندان کے خلاف بیانات پر اکتفا کر رہے ہیں۔ جبکہ پی پی پی قیادت کے خلاف وہ خاموش ہیں۔ پی ٹی آئی کے بعض رہنماؤں کے مطابق بابر اعوان شریف فیملی کیخلاف اپنے پرانے حساب برابر کر رہے ہیں

ذرائع کے مطابق عمران خان کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ ڈیل کر کے اپنی نا اہلی ختم کرائیں۔عمران خان کو یہ باور کرایا گیا ہے کہ ان کی پارٹی کے کارکنان مایوس ہو گئے ہیں اور پارٹی اختلافات کا شکار ہے۔ پارٹی میں کئی گروپ بن گئے ہیں۔ پرویز الہی نے رہائی کے بعد خاموشی اختیار کرلی ہے۔ جبکہ پارٹی کے موجودہ رہنما ان پر بھروسہ کرنے کیلئے تیار نہیں ۔ بعض ذرائع کے مطابق پرویز الہی کا خاموش رہنا ان کی مجبوری ہے۔ ذرائع کے مطابق عمران خان کو بتایا گیا ہے کہ اگروہ جیل میں زیادہ عرصہ رہے تو پارٹی ختم ہو جائے گی۔

Back to top button