کیا ماہ رنگ سپریم کورٹ سے رہائی کا حکم نامہ حاصل کر پائے گی ؟

بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی نظر بندی کو تین ماہ کا عرصہ گزر جانے کے بعد ان کی ہمشیرہ نادیہ بلوچ نے انکی جبری نظر بندی کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع تو کر لیا ہے لیکن اسکے باوجود مستقبل قریب میں ان کی رہائی کا امکان نظر نہیں آتا۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے بلوچستان ہائی کورٹ نے ماہ رنگ بلوچ کی نظربندی ختم کرنے کی درخواست مسترد کر دی تھی۔ اب نادیہ بلوچ نے سپریم کورٹ سے رجوع کرتے ہوئے اپیل کی ہے کہ وہ بلوچستان ہائی کورٹ کے 15 اپریل 2025 کے اُس حکم کو کالعدم قرار دے جس میں امن برقرار رکھنے کے قانون کے تحت ماہ رنگ بلوچ کی نظر بندی کی دائر درخواست کو مسترد کر دیا گیا تھا۔
یاد رہے کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اس وقت کوئٹہ کی ہُدا ڈسٹرکٹ جیل میں قید ہیں، اُن کی گرفتاری 22 مارچ 2025 کو ڈپٹی کمشنر کے حکم نامے کے تحت عمل میں آئی تھی، جو امن عامہ کے قانون کے تحت جاری کیا گیا تھا۔ ماہ رنگ بلوچ کے ساتھیوں کا موقف ہے کہ وہ انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف جاری تحریک کا نوجوان چہرہ بن چکی ہیں۔ انہوں نے یہ راستہ اس وقت اختیار کیا، جب انہیں نوعمری میں اپنے والد کی تشدد زدہ لاش ملی تھی۔ ماہ رنگ کے اغوا ہونے والے والد کی گولیوں سے چھلنی لاش جولائی 2011 میں ملی تھی۔ ماہ رنگ نے 2018 میں اپنے بھائی کی گمشدگی کے بعد بلوچ یونٹی کمیٹی کی بنیاد رکھی تاکہ ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگیوں اور گرفتاریوں کے متاثرین کے خلاف بلوچ نوجوانوں کو متحرک کیا جاسکے۔
ماہ رنگ نے ایک بلوچ نوجوان کے مبینہ ماورائے عدالت قتل کے خلاف بلوچستان سے اسلام آباد تک 1600 کلومیٹر سے زیادہ کے ”بلوچ لانگ مارچ‘‘ کی قیادت کر کے بین الاقوامی توجہ حاصل کی تھی۔ ان کی اس جدوجہد کے سبب انہیں ٹائم میگزین کے 2024 کے 100 سب سے زیادہ امید افزا لوگوں میں شامل کیا گیا۔ تاہم وہ یہ ایوارڈ وصول کرنے کے لیے نہ جا سکیں کیونکہ انہیں ملک چھوڑنے سے روک دیا گیا تھا۔ ان کے مارچ میں ہزاروں خواتین شرکت کرتی ہیں، جو کئی دنوں تک دھرنے دیتی ہیں۔
تاہم دوسری جانب ریاستی ادارے انہیں ملک دشمن قوم پرستوں کی ساتھی قرار دیتے ہیں جو ملک توڑنے کے در پے ہیں اور جنہوں نے بلوچ لبریشن آرمی جیسے مسلح جتھے بنا رکھے ہیں۔
ماہ رنگ بلوچ کی گرفتاری کو تین ماہ گزر جانے کے بعد اب سپریم کورٹ میں سینئر وکیل فیصل صدیقی نےاپیل دائر کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا ہے کہ ماہ رنگ کی بلوچستان ہائی کورٹ میں دائر درخواست کو غیر آئینی طور پر مسترد کیا گیا تھا۔ اپیل میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ بلوچستان ہائی کورٹ کا فیصلہ آئین، قانون اور حقائق کے منافی تھا۔
درخواست میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی بار بار غیر قانونی حراست اور انہیں شدت پسندوں کی ہمدرد قرار دینا دراصل ایک منظم کوشش ہے تاکہ وہ لاپتا افراد کے حق میں آواز نہ اٹھا سکیں، عدالت کو آگاہ کیا گیا کہ انکے والد اور بھائی بالترتیب 2011 اور 2017 میں جبری گمشدگی کا شکار بنے تھے۔ ماہ رنگ کی مرکزی اپیل کے ساتھ ایک علیحدہ درخواست بھی سپریم کورٹ میں دائر کی گئی ہے جس میں استدعا کی گئی ہے کہ اس کیس کے فیصلے تک بلوچستان ہائی کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد معطل کیا جائے۔ درخواست میں الزام لگایا گیا کہ 11 مارچ 2025 کو ایک مسافر ٹرین پر بلوچ شدت پسندوں حملے کے بعد ریاستی اقدامات میں واضح شدت آئی، اور ماہ رنگ بلوچ کو نظر بند کر دیا گیا۔
بھارت چاہنے کے باوجود پاکستانی دریاؤں کا پانی کیوں نہیں روک سکتا؟
درخواست میں عدالت کو یاد دلایا گیا ہے کہ سپریم کورٹ نے 2003 میں فیصلہ دیا تھا کہ حراست کا حکم دینے والے ادارے پر لازم ہے کہ وہ فیصلے کی بنیاد بننے والا تمام مواد عدالت کے سامنے پیش کرے، چاہے کسی دستاویز پر رازداری یا استثنیٰ کا دعویٰ ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ ہائی کورٹ اس بات کا جائزہ لینے کی مکمل مجاز ہے کہ آیا ایم پی او کے تحت حراست کے لیے درکار شرائط پوری ہوئی تھیں یا نہیں۔ عدالت کو آگاہ کیا گیا کہ انصاف کا تقاضا درخواست گزار کے حق میں ہے اور اگر موجودہ مقدمے کے فیصلے تک ہائی کورٹ کے حکم پر عملدرآمد معطل نہ کیا گیا تو درخواست گزار کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ درخواست میں مؤقف اپنایا گیا کہ ڈپٹی کمشنر نے ایم پی او کے تحت جو حکم جاری کیا، وہ اس کے قانونی اختیار سے تجاوز تھا کیونکہ یہ حکم اُس نے یکطرفہ طور پر وزیراعلیٰ کی منظوری کے بغیر جاری کیا۔ لہذا ماہ رنگ بلوچ کی نظر بندی کا حکم نامہ غیر قانونی قرار دیا جائے اور اسے رہا کیا جائے۔