بھارت چاہنے کے باوجود پاکستانی دریاؤں کا پانی کیوں نہیں روک سکتا؟

بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے اور پاکستان کا پانی بند کرنے کے دعوؤں کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ بھارت کسی بھی صورت پاکستان کا پانی روکنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اس لئے مودی سرکار کی پاکستان کا پانی روکنے کی دھمکیوں کی گیڈر بھبکیوں سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں۔
خیال رہے کہ پہلگام واقعہ کے بعد مودی سرکار کی جانب سے انڈس واٹر ٹریٹی معطل کرنےاور پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہوئے دھمکیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ بھارت کی جانب سے کبھی دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ پانی بند کر کے پاکستان کو بنجر بنا دے گا۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ انڈیا مغربی دریاؤں پر ڈیم بنا رہا ہے، پہاڑوں میں سے نہریں کھودنے کے منصوبے زیرِ غور ہیں تاکہ پاکستان کے حصے کے پانی کو اپنے علاقوں کی طرف منتقل کر دیا جائے۔ تاہم یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا انڈیا پاکستان کے حصے کا پانی روکنے کے قابل ہے؟ کیا کسی بھی صورت بھارت پاکستان کا پانی روک سکتا ہے؟

آبی ماہرین کے مطابق انڈیا کسی طور بھی پاکستان کا پانی بند نہیں کر سکتا۔ماہرین کے مطابق قلیل مدتی لحاظ سے بھارتی دھمکیوں کا پاکستان پر زیادہ اثر نہیں پڑے گا کیونکہ اس وقت انڈیا پاکستان کے حصے کا پانی روک نہیں سکتا کیونکہ اس کے پاس فی الوقت کوئی ایسا ذخیرہ یا وسائل نہیں جہاں وہ ان دریاؤں کے اس پانی کو جمع کر سکے۔تاہم اگر یہ تعطل جاری رہتا ہے تو طویل مدت میں اس کا نقصان پاکستان کو اس صورت میں ہو سکتا ہے کہ انڈیا پاکستانی دریاؤں پر جو ڈیمز، بیراج یا پانی ذخیرہ کرنے کے انفراسٹرکچر بنا رہا ہے وہ ان کا ڈیزائن پاکستان کو مطلع کیے بغیر تبدیل کر دے کیونکہ سندھ طاس  معاہدے کے تحت انڈیا پاکستان کو اپنے ہر آبی منصوبے کے ڈیزائن اور مقام کے متعلق تفصیلات دینے کا پابند ہے اور وہ ماضی میں ایسا کرتا رہا ہے۔ تاہم اب سندھ طاس معاہدے کی معطلی کے بعد بھارت پاکستان کو بنا بتائے ایسے مزید منصوبے کر سکتا ہے جس کا اثر پاکستان کے حصے میں آنے والے پانی پر پڑے۔تاہم ایسا کرنا انڈیا کے لیے آسان نہیں ہو گا کیونکہ عالمی بینک اس معاہدے کا ثالث ہے اور پاکستان اس مسئلے کو بین الاقوامی عدالت میں بھی لے جا سکتا ہے۔

آبی ماہرین کا مزید کہنا ہے کہ پاکستان کو آنے والے پانی کو روکنے کی بھارتی دھمکیاں محض سیاسی بیان بازی ہیں، اس سے پاکستان پر زیادہ فرق نہیں پڑے گا کیونکہ ’انڈیا پاکستان کے پانی کو روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے، نہ اس کے پاس اس کا کوئی جواز اور اس کے وسائل موجود ہیں۔ ماہرین کے مطابق انڈیا کے لیے مغربی دریاؤں کے تیز بہاؤ کے دوران اربوں کیوبک میٹر پانی کو روکنا تقریباً ناممکن ہے کیونکہ وہاں اتنے بڑے پیمانے پر پانی ذخیرہ کرنے کے بنیادی ڈھانچے اور اس طرح کے پانی کا رخ موڑنے کے لیے درکار بڑی نہریں دونوں موجود نہیں۔’انڈیا میں بنیادی ڈھانچہ زیادہ تر دریا سے چلنے والے ہائیڈرو پاور پلانٹس ہیں جنھیں بڑے پیمانے پر پانی ذخیرہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔’اس طرح کے ہائیڈرو پاور پلانٹس پانی کی بڑی مقدار کو روکے بغیر بجلی پیدا کرنے کے لیے بہتے ہوئے پانی کی طاقت استعمال کرتے ہیں۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ناکافی انفراسٹرکچر کی وجہ سے انڈیا سندھ طاس معاہدے کے تحت جہلم، چناب اور سندھ کے پانی سے اپنا 20 فیصد حصہ بھی مکمل طور پر استعمال نہیں کر پاتا اور یہی وجہ ہے کہ انڈیا پانی ذخیرہ کرنے کے نئے منصوبوں کی بات کرتا ہے جس پر پاکستان معترض ہے۔

تاہم کچھ ماہرین سمجھتے ہیں کہ اگر انڈیا اپنے موجودہ اور ممکنہ بنیادی ڈھانچے کے ساتھ پانی کے بہاؤ کو کنٹرول کرنا شروع کر دیتا ہے، تو پاکستان اس کا اثر سردی کے موسم میں محسوس کر سکتا ہے، جب پانی کی دستیابی پہلے ہی کم ترین سطح پر ہوتی ہے کیونکہ جب دریا میں بہاؤ کم ہوتا ہے تو ذخیرہ کرنے کی اہمیت زیادہ ہوتی ہے۔ یہی وہ وقت ہے جہاں معاہدے کی رکاوٹوں کی عدم موجودگی کو زیادہ شدت سے محسوس ہوسکتی ہے۔‘

آبی ماہرین کا ماننا ہے کہ بھارت کی جانب سے پاکستان کا پانی روکنے کے دعوے بے بنیاد ہیں کیونکہ  دریائے سندھ لداخ سے 15، 16 ہزار فٹ کی بلندی سے پاکستان میں داخل ہوتا ہے۔ ’اب بات یہ کہ 90 فیصد پانی جو آپ کو تربیلا میں ملتا ہے یا اٹک میں ملتا ہے، وہ پاکستان کے اندر سے آتا ہے۔ کافی سارے گلیشیئرز اس کو کنٹریبیوٹ کرتے ہیں۔ لداخ کے اندر تو بنیادی طور پر دریائے سندھ کا 10 فیصد پانی آتا ہے۔ اس سے آگے جا کے شیوک دریا ملتا ہے۔ گلگت دریا ملتا ہے۔ دریائے سوات ملتا ہے۔ دریائے کابل ملتا ہے۔۔۔ تو دریائے سندھ کا تو مسئلہ ہی کوئی نہیں۔‘ویسے بھی یہ علاقہ بےحد زلزلہ زدہ ہے۔ یہاں روزانہ  کوئی پانچ چھ سو زلزلے آتے ہوں گے، جو آپ کو محسوس نہیں ہوتے کیونکہ یہ ایکٹیو پلیٹ باؤنڈری ہے، تو وہاں پر تو کوئی بھی ڈیم زیادہ دیر سروائیو نہیں کر سکتا۔ اس لئے بھارت دریائے سندھ پر کوئی ڈیم بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہےماہرین کا مزید کہنا ہے کہ  ’دریائے جہلم واحد جگہ ہے جہاں انڈیا ڈیم بنا سکتا ہے۔ تاہم اگر وہاں پرکچھ 100 فٹ کا بھی ڈیم بنایا گیا تو ساری وادی کشمیر پانی کے نیچے آ جائے گی، تو مسئلہ کشمیر حل ہو جائے گا۔‘ اسی طرح دریائے چناب کا پانی روکنا بھی بھارت کیلئے ناممکن ہے۔ اس لئے بھارت کی جانب سے پاکستان کا پانی روکنے کی دھمکیاں صرف کھوکھلی گیڈ بھبکیوں کے سوا کچھ نہیں۔

Back to top button