علما کا مدارس کووزارت تعلیم کےساتھ منسلک رکھنےپراتفاق

اسلام آباد میں مدارس کی رجسٹریشن اوراصلاحات سےمتعلق حکومتی اجلاس میں علما کرام نے مدارس کو وزارت تعلیم کےساتھ ہی منسلک رکھنے پر اتفاق کیا۔

اسلام آباد میں مدارس کی رجسٹریشن اور اصلاحات سےمتعلق اجلاس ہوا جس میں پاکستان بھر سے ہر مکتبہ فکر کے جید علمائے کرام شریک ہوئے۔

اجلاس میں وزیرتعلیم خالد مقبول، وزیرمذہبی امورچودھری سالک حسین، ڈائریکٹر جنرل آف ریجلیئس ایجوکیشن میجر جنرل(ر) غلام قمر، علامہ طاہراشرفی، ڈاکٹر راغب نعیمی، مولانا عبدالکریم آزاد،مفتی عبدالرحیم، خرم نواز گنڈا پور، فضل الرحمان خلیل اور علامہ ابتسام الہٰی ظہیربھی شریک تھے۔

اجلاس میں علمائےکرام سے مدارس رجسٹریشن اوراصلاحات سے متعلق مشاورت کی گئی اور اجلاس میں علما کرام نے مدارس کووزارت تعلیم کے ساتھ ہی منسلک رکھنے پر اتفاق کیا۔

ڈائریکٹر جنرل مذہبی تعلیم میجر جنرل(ر)غلام قمر کا کہنا تھاکہ برصغیر کی تاریخ میں مدارس کا بڑا کردار ہے، ہمارا تعلیم نظام اسکول اور مدارس پر مشتمل ہے، مدارس میں غریب بچوں کو دینی اور دنیاوی تعلیم دی جاتی ہے، مدارس ان غریب بچوں کو معاشرہ کا قابل شخص بناتے ہیں، پاکستان کے قیام سے مدارس کو مشکل حالات کا سامنا ہے، کابینہ کےفیصلے کےبعد مدارس سے متعلق معاہدہ ہوا تھا  اور  طے ہوا تھا کہ تمام مدارس ڈائریکٹریٹ ریلیجیس ایجوکیشن کے ساتھ منسلک ہوں گے۔

غلام قمر نےبتایاکہ مدارس کیلئے ہمارےجاری کردہ فارم میں تمام تفصیلات ہیں، مدارس سے یہ فارم مختلف تصدیق کے بعد ہمارے پاس آتا ہے، ہم نے مدارس کو قومی دھارے میں لانا ہے اور تعلیمی نظام کو سپورٹ کرنا ہے، ملک کے ہرکونے میں ہمارے دفاتر اور ہر علاقےمیں ہمارےدو افراد کام کررہےہیں، ہمارے ارکان گلی محلہ جاکر مدارس کو چیک کرتےہیں،ڈائریکٹوریٹ مذہبی تعلیم اور مدارس کے درمیان کوئی گیپ نہیں۔

ڈائریکٹرجنرل مذہبی تعلیم کا کہنا تھاکہ ایک لاکھ سےزائد مدارس طلبہ کو کتابیں فراہم کیں،53 ممالک کےطلبہ ہمارے مدارس میں زیرتعلیم ہیں، مدارس کے 2500 طلبہ کو اس سال ٹیکنیکل ٹریننگ دی گئی، ڈیجیٹل مارکیٹنگ، ڈیٹا انٹری اور دیگر کورسز ان طلبہ کو کرائے گئےاورخطاطی کی تربیت فراہم کی گئی۔

علامہ راغب نعیمی کا کہنا تھاکہ مدارس کےنظام کو اب کسی بیرونی ایجنڈے سے خطرہ نہیں،مدارس کو وزارت تعلیم کے ساتھ ہی منسلک ہونا چاہیے، مدارس کا معاملہ تعلیمی معاملہ ہے سیاسی اکھاڑا نہ بنایا جائے،مدارس کے بورڈز میں بھی اضافہ ہونا چاہیےاور بی ایس ڈگری کے مساوی مدارس کے طلبہ کو سرٹی فیکیٹ ملنا چاہیے۔

علامہ طاہر اشرفی کا کہنا تھاکہ ممکن ہے سیاست کے میدان میں کسی کے پاس افرادی قوت زیادہ ہو لیکن مدارس کے میدان میں لاکھوں کی تعداد میں افرادی قوت اس فورم کے پاس ہے،حکومت کو اگر یہ معاملہ درپیش ہے کہ وہ 10 ہزار بندہ لے آئیں گے تو یہاں بیٹھےعلما کےاسلام آبادمیں اتنے مدارس ہیں کہ پچیس تیس ہزار بندہ لے آئیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم قافلے اور مظاہرے نہیں چاہتے،تعلیم کو تعلیم اور سیایست کو سیاست کے میدان میں دیکھنا چاہتے ہیں۔

مفتی عبدالرحیم نے مشورہ دیا کہ جو مدارس وزارت صنعت وتجارت کی طرف جانا چاہتے ہیں ان کو جانے دیا جائے،18ہزار مدارس کو نہ چھیڑا جائے اس سے نقصان ہوگا۔ علامہ جواد نقوی نےکہاکہ حکومت مولانا فضل الرحمان سے مذاکرات کرے، مدارس کو سیاست، تجارت،دہشتگردی اورفرقہ واریت سے دور رکھا جائے۔

دوسری جانب مدارس عربیہ کے اجتماع میں قرارداد متفقہ طور پرمنظور کر لی گئی۔ قرارداد حافظ طاہراشرفی کی پیش کی۔

قرارداد میں حکومت پاکستان سےمطالبہ کیا گیا کہ موجودہ نظام مدارس برقراررکھا جائے ، کسی بھی صورت ڈی جی آر ای کے نظام کو ختم نہیں کرنا چاہیے، مدارس کو نظام تعلیم سے ہی وابستہ رکھا جائے۔

قرارداد میں کہا گیا ہے کہ حکومت کوکسی بھی دباؤ میں اس نظام کو تبدیل یا ختم نہیں کرنا چاہیے، اس نظام سےلاکھوں طلبہ کا مستقبل وابستہ ہے،ان کے مستقبل سے نہ کھیلا جائے، کسی بھی قانون سازی کیلئےتمام مدارس کےبورڈزکے قائدین سےمشاورت کی جائے ۔

قرارداد کے متن کےمطابق کسی بھی صورت موجودہ نظام کو تبدیل کرنے کی کوئی کوشش قابل قبول نہیں ہوگی، حکومت کوکسی بھی قسم کے دباؤ میں نہیں آنا چاہیے۔

Back to top button