شہباز گل کے مزید جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد، جیل منتقل

اداروں کے خلاف اکسانے کے مقدمے میں گرفتار پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شہباز گل کے جسمانی ریمانڈ میں توسیع کی استدعا مسترد کرتے ہوئے انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر بھیج دیا گیا۔
شہبازگل کو 2 روزہ جسمانی ریمانڈ مکمل ہونے کے بعد آج اسلام آباد کچہری میں پیش کیا گیا، ملزم شہباز گل کو جوڈیشل مجسٹریٹ عمر شبیر کی عدالت میں پیش کر دیا گیا۔
عدالت میں پیشی کے دوران وکلا کی درخواست پر شہباز گل کی ہتھکڑی کھول دی گئی، عدالت نے لیگل ٹیم کو شہباز گل سے ملاقات کی اجازت دی۔
دوران سماعت عدالت نے تفتیشی افسر سے استفسار کیا کہ آپ کو کیسے پتا چلا کہ دوسرا موبائل بھی ان کے پاس ہے، جس پر تفتیشی افسر نے جواب دیا کہ ہمارے ذرائع نے بتایا کہ ان کے پاس دوسرا موبائل بھی تھا۔
شہباز گل کے وکیل فیصل چوہدری کا کہنا تھا کہ یہ موبائل لینا چاہتے ہیں جس میں سب سیاسی ایکٹیوٹی ہے، جو رٹی رٹائی تقریر انہوں نے کی اس میں کچھ بھی نہیں ہے، پولی گرافک ٹیسٹ کے لیے فزیکل ریمانڈ کی ضرورت ہی نہیں وہ ویسے بھی کرا سکتے ہیں۔
فیصل چوہدری نے مزید کہا کہ فوجی ادارے یا دیگر اداروں کا سب احترام کرتے ہیں، اب یہ چاہتے ہیں کراچی سکردو شمالی علاقہ جات لیکر جائیں، ایف آئی اے ان کے ہاتھ میں ہے یہ میرا اور آپ کا نام بھی ڈال دیں گے۔
شہباز گل کے وکیل علی بخاری نے اپنے دلائل میں کہا کہ ایک کیس میں دو مقدمے نہیں ہو سکتے، کراچی کے مقدمے میں ملزم کو اسی روز عدالت نے رہا کرنے کا حکم دیا، ایک ہی قسم کے الزامات ایک ہی قسم کے ملزم ، کراچی کی عدالت نے ملزم رہا کر دیا، مدعی کا بیان انہوں نے کیا لیا ہے کوئی تائیدی بیان انہوں نے لیا؟
شہباز گل کے وکیل نیاز اللہ نیازی کا اپنے دلائل میں کہنا تھا کہ عمران خان کہتا ہے کہ ملک کے لیے مضبوط فوج ضروری ہے ، ہم اداروں کا احترام کرتے ہیں، کبھی ایک تھانے کبھی دوسرے تھانے کبھی تیسرے تھانہ رکھا جاتا ہے۔
شہباز شریف حکومت نے اب تک کون سی بڑی غلطیاں کی ہیں؟
دوران سماعت سرکاری وکیل کا کہنا تھا کہ شہباز گل کا میڈیا ٹرائل نہیں ہو رہا قانونی کاروائی آگے بڑھا رہے ہیں، شہباز گل کی ایف آئی اے فرانزک رپورٹ مثبت آئی ہے ،شہباز گل کا ٹرانسکرپٹ اداروں کے خلاف ہے۔
پراسیکوٹر نے مزید کہا کہ جب موبائل مل جائے گا فرانزک ہو جائیگا تو پتہ چل جائے گا۔
سماعت کے دوران شہباز گِل نے جسمانی ریمانڈ کی درخواست پر اعتراض کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ پولیس، جسمانی ریمانڈ کو صرف تشدد کے مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہے، ان پر مرضی کے بیانات دینے کے لیے دباؤ ڈالا جارہا ہے، اے آر وائی نیوز’ پر ان کی جانب سے دیے گئے بیان کے لیے کوئی موبائل فون استعمال نہیں کیا گیا، لائیو ٹرانسمیشن کے دوران ریمارکس 8 اگست کو نشر کیے گئے جو کہ محرم کی نویں تاریخ تھی جبکہ موبائل فون سروس معطل تھی،وہ اپنے بنی گالا آفس میں نصب لینڈ لائن فون کے ذریعے نیوز چینل سے بات کر رہے تھے اور ان کے مزید جسمانی ریمانڈ کی منظوری کا کوئی جواز نہیں ہے،مزید ریمانڈ کی منظوری کا مطلب صرف ملزم کو مزید ٹارچر کے مقاصد کے لیے پولیس کے حوالے کرنا ہوگا۔
عدالت نے قریقینی کے دلائل سننے کے بعد جسمانی ریمانڈ کی استدعا پر فیصلہ محفوظ کرلیا، جس کے بعد شہباز گل کو کمرہ عدالت سے بخشی خانہ منتقل کردیا گیا تھا، بعد ازاں عدالت نے شہباز گل کے جسمانی ریمانڈ کی پولیس کی استدعا مسترد کرتے ہوئے انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر بھیج دیا۔
دوسری جانب پی ٹی آئی رہنما شہباز گل کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کرنے کے خلاف اپیل ایڈیشنل سیشن جج محمد عدنان خان نے مسترد کر دی، پولیس نے شہباز گل کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کرنے کے خلاف نظر ثانی کی اپیل دائر کی تھی۔
نظر ثانی کی اپیل سرکاری وکیل رانا حسن عباس نے دائر کی جب کہ ڈائری برانچ نے نظر ثانی کی درخواست پر اعتراض عائد کیا تھا۔ عملہ دائری برانچ کی جانب سے کہا گیا کہ جوڈیشل مجسٹریٹ عمر شبیر کے فیصلے کی تصدیق شدہ کاپی اپیل کے ساتھ منسلک نہیں ہے جس پر پراسیکیوٹر نے نظر ثانی کی درخواست پر اعتراض دور کر تے ہوئے جوڈیشل مجسٹریٹ عمر شبیر کی عدالت کی تصدیقی شدہ کاپی درخواست کے ساتھ لگا دی۔
ڈیوٹی جج ایڈیشنل سیشن جج محمد عدنان خان نے درخواست سماعت کی، جس میں پولیس کی جانب سے استدعا کی گئی کہ جوڈیشل مجسٹریٹ کا حکم نامہ معطل کر کے مزید جسمانی ریمانڈ دیا جائے، ملزم شہباز گل سے مزید تفتیش کے لیے جسمانی ریمانڈ درکار ہے۔
سرکاری وکیل رانا حسن عباس کا کہنا تھا کہ ہم نے ریمانڈ کی استدعا کی تھی جسے مسترد کر دیا گیا جس پر جج کا کہنا تھا کہ میں اس نظر ثانی کی اپیل پر سماعت ہی نہیں کر سکتا،آپ معاملے کی مزید سماعت صبح کے لیے رکھ لیں، ہم دلایل دیں گے جس پر جج نے ریمارکس دیے کہ آپ آج ہی دلائل کہ یہ قابل سماعت بھی ہے یا نہیں،میں سیکشن 435 پر دلایل دینا چاہتا ہوں اگر آپ اجازت دیں جس پر جج نے پراسیکیوٹر رانا حسن عباس کو دلائل دینے کی اجازت دیدی۔
اسی اثنا تحریک انصاف کی وکلا ٹیم بھی کمرہ عدالت میں پہنچ گئی جب کہ پی ٹی آئی کے رہنما علی نواز اعوان اور ذلفی بخاری بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔
جس کے بعد شہباز گل کا جسمانی ریمانڈ مسترد کرنے کے خلاف نظرثانی اپیل پر ایڈیشنل سیشن جج عدنان خان نے سماعت کی، سماعت کے آغاز پر پراسیکیوٹر راناحسن عباس نے کہا کہ ایڈووکیٹ جنرل خود عدالت کے سامنے پیش ہو رہے ہیں، سماعت میں وقفہ کیا جائے جس پر عدالت نے سماعت میں آدھے گھنٹے کا وقفہ کر دیا۔
دوران سماعت جج نے ڈسٹرکٹ پراسیکیوٹر محمد نسیم سے استفسار کیا کہ حکومت کی جانب سے پراسیکیوٹر کا ہیڈ کون ہے، ڈسٹرکٹ پراسیکوٹر کا کہنا تھا کہ جوڈیشل آرڈر ہے یا ایڈمنسٹریٹو آرڈر ہے اس کو عدالت نے دیکھنا ہے، عدالت نے کہا کہ ایڈوکیٹ جنرل صاحب آپ کی پوزیشن نیوٹرل کی ہے۔
ڈسٹرکٹ پراسیکوٹر نے دلائل دینا شروع کیے تو ایڈووکیٹ جنرل نے ڈسٹرکٹ پراسیکوٹر کو روکنے کی کوشش کی جس پر عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل کو ڈسٹرکٹ پراسیکوٹر کو دلائل دینے سے روکنے سے منع دیا۔ ڈسٹرکٹ پراسیکوٹر نے دلائل میں نظرثانی اپیل کے قابل سماعت ہونے پر مختلف عدالتوں کے حوالے دیے۔سرکاری وکیل کا کہنا تھا لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے موجود ہیں کہ عدالت ریمانڈ کی درخواست پر نظرثانی کرسکتی ہے، ہمیں تیاری کے لیے وقت درکار ہے کل پراسیکوٹر تعینات کریں گے۔
سماعت کے دوران شہباز گل کے ریمانڈ کی نظرثانی اپیل پر دلائل دینے یا نہ دینے سے متعلق ایڈوکیٹ جنرل اور پراسیکیوٹر میں اختلاف سامنے آیا جس پر عدالت نے کہا کہ ایڈوکیٹ جنرل کسی وکیل کو دلائل سے نہیں روک سکتے، عدالت کا کہنا تھا کہ پراسیکیوٹر کے دیے گئے عدالتی فیصلوں سے مطمئن ہوا تو سماعت کل دوبارہ ہو گی ، اگر پراسیکیوٹر کے عدالتی فیصلے مطمئن نہ کر سکے تو عدالت فیصلہ کردے گی۔
بعد ازاں شہباز گل کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کرنے کے خلاف اپیل ایڈیشنل سیشن جج محمد عدنان خان نے مسترد کر دی تھی۔
واضح رہے کہ رواں ہفتے کے آغاز میں پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے نجی ٹی وی چینل اے آر وائی’ نیوز کو اپنے شو میں سابق وزیرِا عظم عمران خان کے ترجمان شہباز گل کا تبصرہ نشر کرنے پر شوکاز نوٹس جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ان کا بیان ‘مسلح افواج کی صفوں میں بغاوت کے جذبات اکسانے کے مترادف تھا۔
پی ٹی آئی رہنما ڈاکٹر شہباز گل نے الزام عائد کیا تھا کہ حکومت، فوج کے نچلے اور درمیانے درجے کے لوگوں کو تحریک انصاف کے خلاف اکسانے کی کوشش کر رہی ہے، فوج میں ان عہدوں پر تعینات اہلکاروں کے اہل خانہ عمران خان اور ان کی پارٹی کی حمایت کرتے ہیں جس سے حکومت کا غصہ بڑھتا ہے۔
شہباز گل نے یہ الزام بھی عائد کیا تھا کہ حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) کا ‘اسٹریٹجک میڈیا سیل’ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان اور مسلح افواج کے درمیان تفرقہ پیدا کرنے کے لیے غلط معلومات اور جعلی خبریں پھیلا رہا ہے، انہوں نے کہا جاوید لطیف، وزیر دفاع خواجہ آصف اور قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر ایاز صادق سمیت دیگر حکومتی رہنماؤں نے ماضی میں فوج پر تنقید کی تھی اور اب وہ حکومتی عہدوں پر ہیں۔
یاد رہے کہ وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ شہباز گل کے خلاف باقاعدہ ایک مقدمہ درج کر کے گرفتار کیا گیا ہے اور صبح عدالت میں مقدمے کے ثبوت پیش کیے جائیں گے، عمران خان نے ممنوعہ فنڈنگ اور توشہ خانہ ریفرنس آنے کے بعد ایک بیانیہ بنایا جس کی ذمہ داری ایک نجی ٹی وی چینل سمیت پاکستان تحریک انصاف رہنما فواد چوہدری اور ڈاکٹر شہباز گل کو دی گئی۔
رانا ثنا اللہ نے کہا تھا عمران خان کی زیر صدارت ایک اجلاس ہوا جس میں سازشی بیانیہ بنایا گیا اور اس کی ذمہ داری شہباز گِل اور فواد چوہدری کو سونپی گئی جس کے بعد ایک نجی ٹی وی چینل پر فون کال پر بات کرکے پورا بیانیہ پڑھ کر سنایا گیا جس میں ایسے جملے بھی شامل تھے جن کا نشر ہونا قومی مفاد میں نہیں تھا مگر اس دوراں شہباز گِل کو روکا نہیں گیا۔