PTIکے باغی رکن گلگت کے نئے وزیراعلیٰ کیسے بنے؟

پاکستان تحریک انصاف کے باغی رکن گلگت بلتستان اسمبلی اور سابق وزیر صحت حاجی گلبر خان پی ڈی ایم جماعتوں اور پی ٹی آئی فارورڈ بلاک اراکین کی حمایت سے گلگت بلتستان کے چوتھے وزیر اعلٰی منتخب ہو گئے ہیں۔حاجی گلبر خان کو ایوان میں موجود 20 میں سے 19 ارکان نے ووٹ دیا جبکہ ہم خیال گروپ کے 10 ارکان نے کارروائی کا بائیکاٹ کیا، وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان آج ہی اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے۔

حاجی گلبر خان کا تعلق گلگت بلتستان کے ضلع دیامر سے ہے، وزارت اعلٰی کے لیے حاجی گلبر خان کو مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے اراکین کی حمایت حاصل رہی، ایوان میں موجود 20 میں سے 19 اراکین نے گلبر خان کو ووٹ دیا۔ تحریک انصاف کے باغی اراکین کے علاوہ ن لیگ، پی پی پی، جے یو آئی کے ارکان نے بھی گلبر خان کو ووٹ دیا جبکہ  اجلاس کے دوران اسمبلی ہال میں موجود ضلع غذر سے منتخب ہونے والے نواز خان ناجی نے اپنا ووٹ کاسٹ نہیں کیا۔

اس سے قبل پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے گلگت بلتستان میں وزیراعلٰی کے انتخاب کا بائیکاٹ کیا تھا۔پاکستان تحریک انصاف گلگت بلتستان نے آخری لمحات میں گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی میں وزیر اعلٰی کے انتخاب کے بائیکاٹ کا اعلان کیا جس کے باعث پی ٹی آئی کے ناراض رکن اور اپوزیشن جماعتوں کے مشترکہ امیدوار حاجی گلبر خان کے وزیرا علٰی بننے کی راہ ہموار ہوگئی۔

پی ٹی آئی کے نامزد امیدوار راجہ اعظم نے رات گئے ساتھیوں اور پارٹی قائدین کے ساتھ مشاورت کی جس کے بعد انہوں نے بائیکاٹ کا اعلان کیا اور موقف اپنایا کہ ان کے ساتھیوں کو وفاداریاں تبدیل کرنے کے لیے دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔راجہ اعظم اور ان کے متبادل امیدوار راجہ زکریا سمیت دیگر اراکین نے بتایا کہ سابق وزیراعلٰی خالد خورشید کی نا اہلی کے بعد سے ہی گلگت بلتستان میں تحریک انصاف کو حکومت سے محروم کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔راجہ اعظم نے بتایا کہ پانچ جولائی کو اسمبلی کو یرغمال بنایا گیا۔ پولیس نے بم کی افواہ پھیلا کر اسمبلی کی عمارت خالی کی اور پھر اسمبلی کو سیل کر دیا گیا جس کے بعد اسمبلی میں اسپیکر کو بھی داخل ہونے نہیں دیا گیا۔

خیال رہے کہ سابق وزیر اعلی خالد خورشید کی نا اہلی کے بعد ہی وزارتِ اعلٰی کی کرسی کے لیے جوڑ توڑ کا سلسلہ شروع ہو تے ہی پاکستان تحریک انصاف گلگت بلتستان میں دو حصوں میں تقسیم ہو گئی تھی اور دیامیر ڈیثرون سے تعلق رکھنے والے رکن کی سربراہی میں فاورڈ بلاک بنا کر سی ایم کے لیے امیدوار بن گئے تھے۔اس پس منظر میں پاکستان تحریک انصاف نے ناراض راکین کے مقابلے میں بلتستان سے تعلق رکھنے والے ہم خیال گروپ کے راجہ اعظم کو وزارت اعلٰی کے لیے نامزد کیا تھا۔ جبکہ راجہ زکریا اور جاوید منوا بھی کاغذات نامزدگی جمع کرا چکے تھے۔ لیکن حکومتی اور اداروں کی جانب سے مبینہ عمل دخل اور اراکین کو دھکمیاں دینے پر تحریک انصاف نے انتخابی عمل کا ہی بائیکاٹ کردیا۔

واضح رہے کہ نو منتخب وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حاجی گلبرخان نے 2020میں گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ پر حصہ لیا۔ حاجی گلبر حلقہ جی بی اے 18دیامیر سے الیکشن میں اترے اور 807 ووٹوں کی برتری سے کامیاب ہوکر قانون ساز اسمبلی میں پی ٹی ائی کے رکن بنے تھے۔ 2020کے انتخابات کے گلگت بلتستان میں تحریک انصاف کی حکومت کے قیام کے بعد حاجی گلبر خان کو وزیر اعلٰی خالد خورشید کی کابینہ میں شامل کرکے محکمہ صحت کا وزیر بنایا گیا۔ایک عرصے سے گلگت بلتستان کی سیاست میں سرگرم حاجی گلبر 2020کے انتخابات سے چند ماہ قبل جمعیت علماء اسلام ف چھوڑ کر تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے۔یہی وجہ ہے کہ وہ دیامیر سے کچھ اراکین کی حمایت حاصل کرکے فارورڈ بلا ک بناکر کامیاب ہوئے ہیں۔

ذرائع کے مطابق حاجی گلبر خان کا وزیر اعظم سے رابطے کے بعد انہیں مشترکہ امیدوار کے طور پر منتخب کرانے پر اتفاق ہوگیا تھا اور پی ڈی ایم کی تمام جماعتیں ان کی حمایت پر کمر بستہ ہوگئی تھیں، تاہم وزیر اعظم کی جانب سے اس فیصلہ کے بعد گلگت بلتستان میں پیپلز پارٹی کے ارکین نے ناراض ہو کر اسمبلی سے استعفٰی دے دیا تھا۔

گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی میں واضح اکثریت کے باوجود بھی تحریک انصاف وزیرِ اعلٰی کے منصب سے محروم ہو گئی جس کی بڑی وجہ تحریک انصاف کے اراکین کی بغاوت تھی۔ وزیرِ اعلٰی خالد خورشید کی نااہلی کے بعد اراکین پارٹی سے مبینہ طور پر باغی ہو گئے تھے۔ جس کے باعث پی ٹی ائی کے امیدوار کے مقابلے میں اپنے ہی رکن میدان میں آگئے تھے۔حاجی گلبر خان نہ صرف پارٹی کے باغی اراکین کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے بلکہ اپوزیشن جماعتوں نے بھی انہیں مشترکہ امیدوار نامزد کیا اور بالآخر وہ گلگت کے نئے وزیراعلیٰ منتخب ہوگئے۔

موبائل ’’لون‘‘ ایپس صارفین کو کیسے بلیک میل کرتی ہیں؟

Back to top button