دو مزید کور کمانڈرز کے گھر بھی نشانے پر تھے

نگران وزیر اطلاعات پنجاب عامر میر نے انکشاف کیا ہے کہ لاہور کے ساتھ راولپنڈی اور گوجرانوالہ کے کورکمانڈرز ہائوس بھی نشانے پر تھے لیکن حملہ آور کامیاب نہیں ہو سکے۔ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے پنجاب کے وزیر اطلاعات عامر میر نے اس خبر کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ عسکری ٹاور کو آگ لگانے والے بہت سے افراد جو لاہور کے کور کمانڈر ہاؤس کی طرف گئے تھے، ان کے پی ٹی آئی لیڈروں کے ساتھ رابطے ثابت ہو چکے ہیں، ”اصل میں منصوبے کے مطابق احتجاج کرنے والوں نے گوجرانوالہ اور راولپنڈی کے کور کمانڈرز کی رہائش گاہوں کو بھی ٹارگٹ کرنا تھا مگر خوش قسمتی سے وہ ان حملوں میں کامیاب نہ ہو سکے۔

Protest against the arrest of Imran Khan

ایک اور سوال کے جواب میں عامر میر کا کہنا تھا کہ سانحہ نو مئی میں ملوث افراد کے خلاف واضح شواہد موجود ہیں اور وہ قانونی کارروائی سے بچ نہیں سکیں گے، ”اس بات کو یقینی بنایا جا رہا ہے کہ کسی بے گناہ کو سزا نہ ملے لیکن واضح شواہد کی موجودگی میں اس بات کا امکان ہے کہ سانحہ نو مئی میں ملوث افراد جلد اپنے کیے کی سزا پائیں گے۔

ملزمان کی گرفتاری کے لیے مارے جانے والے چھاپوں کے حوالے سے عامر میر کا کہنا تھا کہ ابتدائی طور پر سول اور ملٹری مقامات پر حملہ کرنے والے چھبیس ہزار افراد کی شناخت کی گئی تھی پھر بعد ازاں ان میں سے چودہ ہزار لوگوں کو شارٹ لسٹ کیا گیا، ”ابھی ہمارے پاس سانحہ نو مئی میں ملوث ان پانچ سو افراد کی ایک لسٹ موجود ہے، جو قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مطلوب ہیں، ان میں سے جو لوگ ابھی تک مفرور ہیں ان کی گرفتاری کے لیے پولیس کا سرچ آپریشن جاری ہے۔

یاد رہے جناح ہاؤس حملہ کیس میں ملوث جن سولہ سویلین مشتبہ افراد  کو ملٹری کورٹ میں کیس چلانے کے لیے فوج کے حوالے کیا گیا ہے، ان کے نو مئی کے واقعات میں ملوث ہونے کی تصدیق پنجاب حکومت پہلے ہی کر چکی ہے۔ اس حوالے سے پوچھے جانے والے ایک سوال کے جواب میں عامر میر کا کہنا تھا کہ نو مئی کے واقعات میں ان لوگوں کو شامل تفتیش کیا گیا جن کی کور کمانڈر ہاؤس لاہور کے اندر اور باہر موجودگی جیو فینسنگ (موبائل فونز کے ذریعے مجرموں کا سراغ لگانے والا نظام) کے ذریعے ثابت ہو گئی تھی۔

ان کے مطابق اس کے بعد ان افراد کا ڈیٹا نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) سے لیا گیا۔ اور پھر اس ڈیٹا کی مدد سے ان کے موبائل فونز کا ریکارڈ حاصل کیا گیا، جس سے ان کے پی ٹی آئی کی لیڈر شپ کے ساتھ رابطوں کا پتہ چلا۔ عامر میر کے بقول اس کے علاوہ موقع پر بنائی جانے والی ویڈیوز اور تصویروں سے بھی کئی افراد کی سانحہ نو مئی میں ملوث ہونے کی تصدیق ہوئی، ”سارے شواہد کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد ہی ان افراد کے کیسز ملٹری کورٹس کو بھجوائے گئے ہیں۔‘‘

پنجاب کے وزیر اطلاعات کے بقول کئی افراد نے ان سے حراست میں لیے گئے متعدد ”بے گناہ‘‘ لوگوں کی رہائی کے لیے متعلقہ پولیس اہلکاروں سے بات کرنے کے لیے رابطہ کیا تھا لیکن جب متعلقہ پولیس حکام سے ان ”بے گناہوں‘‘ کے کیسز کی تفصیل منگوائی گئی تو سفارش لے کر آنے والے خود ہی دنگ رہ گئے۔ ان کے بقول ایک صاحب نے بتایا کہ ایک ڈرائیور کسی ایئر ہوسٹس کو چھوڑنے گیا ہوا تھا لیکن اس کا نام بھی ملوث افراد کی لسٹ میں آ گیا ہے۔ اس پر جب اس بندے کے بارے میں معلومات منگوائی گئیں تو جناح ہاؤس کے اندر اور باہر اس کی تین گھنٹے تیرہ منٹ تک کی موجودگی ثابت ہو گئی۔

اس سوال کے جواب میں کہ جیو فینسنگ کی زد میں آنے والے کئی صحافیوں کو بھی پولیس کی طرف سے پریشانیوں کا سامنا ہے۔ پنجاب کے وزیر اطلاعات عامر میر نے بتایا کہ جائے وقوعہ پر فرائض سر انجام دینے والے متعدد صحافیوں کی شکایات کا ازالہ کیا جا چکا ہے اور اب حتمی طور پر یہ فیصلہ کر لیا گیا ہے کہ کوئی پولیس اہلکار کسی صحافی کے گھر نہیں جائے گا۔خواتین کو اپنے گھر والوں سے نہ ملنے کی اجازت نہ دینے کے حوالے سے پنجاب کے وزیر اطلاعات نے چیلنج کیا کہ اگر کسی کے علم میں ایک بھی ایسا واقعہ ہے تو وہ ان کے علم میں لائے، ”ہمیں جس خاتون نے اپنے رشتہ داروں سے ملاقات کے لیے کہا ہم نے قانون کے مطابق اس کی اجازت دی۔

عمران خان کی گرفتاری کے بعد پرتشدد مظاہروں کے بعد ان کے ہزاروں حامیوں کو گرفتار کرلیا گیا ہے

عامر میر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پنجاب حکومت زیر حراست خواتین  کے بارے میں بہت محتاط ہے۔ان کے مطابق حکومت کو کچھ عرصہ پہلے انٹیلیجنس ذرائع سے یہ اطلاعات ملیں تھیں کہ پی ٹی آئی کے خواتین ورکرز سے کہا گیا ہے کہ وہ گرفتاری کی صورت میں نامناسب حکومتی طرز عمل پر مبنی ویڈیوز بنا کر عام کریں، ”ہم نے خواتین کو محفوظ جگہ پر رکھا اور کسی مرد کو اس طرف جانے کی اجازت تک نہیں دی۔ زیر حراست مردوں کے حوالے سے ہمارے پاس یہ اطلاعات آتی رہی ہیں کہ ان سے ملنے والے ان کے لیے لیڈرشپ کی طرف سے ‘پیغام رسانی‘‘ کا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔

پی ٹی آئی چھوڑ کر آنے والے لوگوں کے حوالے سے پوچھے جانے والے ایک سوال کے جواب میں عامر میر کا کہنا تھا کہ اس سے پنجاب حکومت کا کوئی تعلق نہیں ہے۔اس سوال کے جواب میں کہ نگران حکومت اپنے مینڈیٹ سے تجاوز کیوں کر رہی ہے، صوبائی وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ پنجاب کی نگران حکومت واحد حکومت ہے، جسے الیکشن کمیشن نے مقرر کیا ہے اور یہ ایک غیر سیاسی اور غیر جانب دار حکومت ہے، ”ہمارا بنیادی کام الیکشن کروانا ہے الیکشن کے بعد اپنے حکومت کو ایک دن کے لیے بھی طول دینے کی

9 مئی کے ہنگاموں نے آرمی چیف کو کیسے مضبوط کیا؟

خواہش نہیں رکھتے۔ ‘‘

Related Articles

Back to top button