فوجی ترجمان کے اعلان کے بعد سہیل آفریدی کا وزیراعلی بننا مشکل

پاکستانی فوج کے ترجمان کی جانب سے اس اعلان کے بعد کہ خیبر پختون خواہ میں ریاست مخالف قیادت کو اقتدار نہیں لینے دیا جائے گی، یہ واضح ہو گیا ہے کہ تحریک انصاف کے لیے علی امین گنڈاپور کی جگہ سہیل آفریدی کو نیا وزیر اعلی خیبر پختون خواہ بنانا مشکل ہو گیا ہے۔ یاد رہے سہیل آفریدی کو ملک بھر میں دہشت گردی پھیلانے والی تحریک طالبان پاکستان کا کھلا ہمدرد خیال کیا جاتا ہے۔
اگلے روز پشاور پہنچ کر پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے عمران خان کا نام لیے بغیر کہا کہ ریاست اور عوام کو ایسے شخص کی خواہش پر نہیں چھوڑا جا سکتا جو خیبر پختونخوا میں دہشت گردی واپس لانے کا اکیلا ذمہ دار ہو۔ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ 2025 میں خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے 3 ہزار 984 واقعات ہوئے، لیکن سوال یہ ہے کہ دہشت گردی کے 70 فیصد واقعات خیبر پختون خوا میں کیوں وقوع پزیر ہوئے؟ انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو جگہ دی گئی، یہاں گورننس اور عوامی فلاح و بہبود کو جان بوجھ کر کمزور کیا گیا، جس کا خمیازہ وہاں کے بہادر اور غیور عوام اپنے خون کی صورت میں بھگت رہے ہیں، جبکہ سندھ اور پنجاب میں بہتر گورننس ہونے کی وجہ سے دہشت گردی نہ یونے کے برابر یے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے بالواسطہ عمران خان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ کون ہے وہ شخص جو یہ کہہ رہا ہے کہ طالبان دہشت گردوں کے خلاف فوجی آپریشن بند کریں اور ان سے بات چیت کریں، کون ہے وہ جو کہہ رہا ہے کہ اسے خیبر پختون خواہ میں ایسی صوبائی حکومت برداشت نہیں جو طالبان دہشت گردوں کے خلاف فوجی آپریشن کی مزاحمت نہ کرے۔
فوجی ترجمان کی پریس کانفرنس کے بعد سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اب سہیل آفریدی کا وزیراعلی خیبر پختون خواہ بننا مشکل نظر آتا ہے۔ یاد رہے کہ تحریک طالبان سے قریبی تعلقات کی وجہ سے سہیل آفریدی سخت عوامی تنقید کی زد میں ہیں۔ جہاں ایک طرف وفاقی حکومت نے سہیل آفریدی کی تقرری کی مخالفت کا اعلان کر دیا ہے وہیں پی ٹی آئی کے اندر سے بھی سہیل آفریدی کے خلاف آوازیں بلند ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ قبائلی علاقے کی خیبر ایجنسی سے تعلق رکھنے والے سہیل آفریدی ماضی قریب میں تحریک طالبان کے حق میں اور فوجی آپریشن کے خلاف کئی عوامی مظاہروں کی قیادت کر چکے ہیں۔
تحریک انصاف کے بانی عمران خان نے گنڈاپور کی جگہ سہیل آفریدی کی نامزدگی ایک ایسے وقت میں کی ہے جب خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے اور ہر روز پاک فوج کے جوان اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں، ناقدین کے مطابق آفریدی کی نامزدگی کے منفی نتائج صوبے کے عوام کو بھگتنا پڑیں گے لہذا اس بات کا امکان کم نظر آتا ہے کہ آفریدی وزارت اعلی کے عہدے پر فائز ہوں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں سے قریبی روابط کے الزامات کے باوجود عمران خان کی جانب سے سہیل آفریدی کی نامزدگی سے ظاہر ہے کہ تحریکِ انصاف کی سیاست نظریات کی بجائے شخصی مفاد اور انتقامی نفسیات کے گرد گھوم رہی ہے۔ انکا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا کو تجربہ گاہ بنانے کی کوشش ہو رہی ہے جس کے نتائج قومی سلامتی کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں۔
مبصرین کے مطابق طالبان سے ہمدردیاں اور رابطے رکھنے والے سہیل آفریدی کی بطور وزیر اعلی نامزدگی صوبے میں دہشت گردی کے خلاف جاری ریاستی حکمتِ عملی کو متاثر کر سکتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ طالبان نواز وزیراعلی کے برسر اقتدار آنے سے خیبر پختون خواہ میں دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے والی سکیورٹی فورسز کا مورال بھی متاثر ہو گا۔
سہیل آفریدی کو وزیراعلیٰ نامزد کیے جانے پر سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے سخت ردعمل کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ تحریک انصاف کے سابق رہنما اور عمران خان کے سابق میڈیا ایڈوائزر فیاض الحسن چوہان کا کہنا ہے کہ سہیل آفریدی خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ نہیں بن سکتے۔ وہ دہشت گردوں کے جانے پہچانے سہولت کار اور ہمدرد ہیں، وہ اپنے سزا یافتہ قائد عمران خان کی کاپی ہیں جن کی پالیسیوں نے صوبے میں دہشت گردی کو دوبارہ بھڑکایا۔ انہوں نے کہا کہ ایسے شخص کو وزیراعلیٰ بنانا بالکل ایسے ہوگا جیسے ٹی ٹی پی کے امیر نور ولی محسود کو صوبے کی قیادت سونپ دی جائے۔ آفریدی کے جرائم پیشہ مافیا کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں، وہ بھاری کمیشن لیتے ہیں، اور کھلے عام طالبان کی حمایت کرتے ہیں جبکہ پاک فوج کے خلاف زہر اگلتے ہیں۔
خیبرپختونخوا میں ریاست مخالف قیادت قبول نہیں: ڈی جی آئی ایس پی آر
ادھر پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما ندیم افضل چن نے دعویٰ کیا ہے کہ سہیل آفریدی خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ نہیں بن سکیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن جماعتوں کا متفقہ امیدوار بھی سامنے آ سکتا ہے تاکہ سہیل آفریدی کا راستہ روکا جا سکے۔
