عمران کو فوج مخالف سازش پر فوجی تحویل میں دینے کا خدشہ

 

 

 

 

معروف لکھاری اور تجزیہ کار حفیظ اللہ خان نیازی نے کہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور تحریک انصاف کے مابین بڑھتی ہوئی رسہ کشی کے دوران اب یہ امکان پیدا ہو گیا ہے کہ اڈیالہ جیل میں قید عمران خان کو فوجی تنصیبات پر حملوں اور فوج کے خلاف سازش کے الزام میں ٹرائل کے لیے فوجی تحویل میں دے دیا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ حالات جس سمت جا رہے ہیں، اس سے لگتا ہے کہ عمران خان کے حوالے سے کوئی بڑا قدم اٹھایا جانے والا ہے، لیکن ایسا کوئی بھی فیصلہ ملک کے لیے ایک نئے بحران کا دروازہ کھول سکتا ہے۔

 

حفیظ اللہ نیازی روزنامہ جنگ کے لیے اپنے سیاسی تجزیے میں کہتے ہیں کہ جنرل فیض حمید کا ٹرائل آخری مراحل میں ہے جس کے دوران عمران خان کو بطور گواہ طلب کیے جانے کا امکان ہے۔ یوں لگتا ہے کہ عمران خان کو بھی فیض حمید کے کورٹ مارشل کے ساتھ جوڑنے کا منصوبہ ہے۔ ایسے میں عمران خان کی ممکنہ طور پر نامعلوم مقام پر منتقلی اور خیبر پختون خوا میں وزیر اعلی کی تبدیلی دونوں واقعات ایک ہی کہانی کا حصہ معلوم ہوتے ہیں۔ لگتا ہے کہ عمران  کو رفتہ رفتہ "فیض حمید کیس” کے ساتھ جوڑ کر کسی بڑے فیصلے کی طرف بڑھا جا رہا ہے۔ ایسے میں ممکن ہے آنے والے دنوں میں عمران کو فوجی تحویل میں دے دیا جائے۔

 

حفیظ اللہ نیازی کہتے ہیں کہ پاکستانی سیاست میں جب بھی طاقتور حلقے یا "سیاسی انجینئرز” کوئی نیا منصوبہ بناتے ہیں، وہ ہمیشہ ایک مخصوص طریقے سے کام کرتے ہیں۔ ہدف پہلے طے کیا جاتا ہے اور اس کے مطابق کھیل بعد میں ترتیب دیا جاتا ہے۔ پرانے کردار نکالے جاتے ہیں، نئے چہرے لائے جاتے ہیں، اور یوں کہانی کو نیا رخ دیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسی روایت کا ایک تازہ باب علی امین گنڈاپور کی اچانک فراغت کی صورت میں سامنے آیا۔ گنڈاپور کی چھٹی محض ایک شخص کی تبدیلی نہیں، بلکہ ایک بڑے سیاسی کھیل کا آغاز ہے۔ اصل سوال یہ نہیں کہ یہ تبدیلی اچھی ہے یا بری، بلکہ یہ ہے کہ اس کے پیچھے کون سے مقاصد کارفرما ہیں۔

 

حفیظ اللہ نیازی کہتے ہیں کہ عمران خان کے گنڈاپور کو وزیراعلیٰ بنانے کا مقصد فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات بہتر بنانا تھا۔ لیکن وقت کے ساتھ یہ تعلقات مزید بگڑ گئے۔ دراصل اسٹیبلشمنٹ عمران کے بڑھتے ہوئے فوج مخالف بیانیے کو کنٹرول نہیں کر پائی۔ یہ اب ڈھکی چھپی بات نہیں کہ مارچ 2021 میں ہی عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کا فیصلہ ہو چکا تھا۔ خود دو سابق جرنیل بشمول آئی ایس آئی سربراہ 27 اکتوبر 2022 کو ایک پریس کانفرنس میں یہ بات واضح کر چکے ہیں۔ اس فیصلے کے پیچھے ذاتی مفادات بھی تھے۔ دراصل جنرل باجوہ چاہتے تھے کہ اگر وہ ایک اور ایکسٹینشن حاصل نہ بھی کر پائیں تو ان کے پسندیدہ افسر کو نیا آرمی چیف بنایا جائے۔

 

نیازی کے بقول عمران خان کو اقتدار سے نکالنے کے بعد بھی انہیں کھلی چھٹی دی گئی کہ وہ جلسے جلوس کریں، شہباز شریف کی حکومت پر دباؤ ڈالیں اور عوام میں مقبولیت بحال کریں۔ عمران نے یہ موقع ضائع نہیں کیا۔ انہوں نے جنرل قمر باجوہ کے خلاف سخت بیانات دیے، ٹی وی انٹرویوز میں ان پر تنقید کی، اس بیانیے نے انکی سیاست میں نئی جان ڈال دی۔ یوں نواز شریف کا پرانا "اسٹیبلشمنٹ مخالف” بیانیہ اب عمران کے ہاتھ میں آ گیا۔ نتیجتاً عمران  کی مقبولیت آسمان پر جا پہنچی اور نواز شریف کی سیاست دفاعی پوزیشن پر آ گئی۔ پنجاب میں ضمنی انتخابات میں کامیابی اور پرویز الٰہی کے ساتھ اتحاد نے عمران خان کو مزید مضبوط کر دیا۔ دوسری طرف جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید کا مقصد اپنی طاقت کو برقرار رکھنا تھا۔ لیکن ان کے منصوبے الٹے پڑ گئے۔ عمران ایک ایسے عوامی لیڈر بن گئے جو کسی کے قابو میں نہیں آ رہے تھے۔

 

حفیظ اللہ نیازی کہتے ہیں کہ جب جنرل قمر باجوہ اور جنرل فیض دونوں رخصت ہوئے، تو فوجی اسٹیبلشمنٹ "پراجیکٹ عمران خان” پورے زور و شور سے لپیٹنے پر تل گئی۔ جنرل فیض حمید کو بھی گرفتار کر لیا گیا اور ان کا کورٹ مارشل شروع ہو گیا۔ 8 فروری 2024 کا لیکشن ہارنے کے بعد عمران خان نے اپنی پالیسی بدل لی۔ وہ مفاہمت کے بجائے دباؤ اور بلیک میلنگ کی سیاست پر اتر آئے۔ انہوں نے طاقت کے زور پر اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنے کی حکمتِ عملی اپنائی۔ اب صورت حال یہ ہے کہ عمران اور فوجی اسٹیبلشمنٹ دونوں جنگ کے آخری مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں۔ عمران ایک طرف مذاکرات کی بات کرتے ہیں، مگر ساتھ ہی سخت بیانات بھی دیتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ان کے حامی اس بیانیے کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں اور اپنے فائدے بھی حاصل کرتے ہیں۔

 

ایسے میں علی امین گنڈاپور کا جانا کوئی حیران کن بات نہیں۔ اب عمران خان ممکنہ طور پر کسی ایسے وزیراعلیٰ کو لائیں گے جو لڑنے مرنے والا، جذباتی اور وفادار ہو۔ سہیل آفریدی کا نام اسی تناظر میں سامنے آیا ہے۔ وہ نوجوان ہیں، جوشیلے بھی، مگر اگر وہ اسٹیبلشمنٹ سے ٹکرانے کی کوشش کریں گے تو ان کا انجام بھی برا ہوگا۔ فوجی ترجمان نے پہلے ہی پشاور میں ایک پریس کانفرنس کے دوران اعلان کر دیا ہے کہ کوئی بھی ریاست مخالف شخص اقتدار میں نہیں آنے دیا جائے گا۔ یاد رہے سہیل آفریدی کو بھی عمران خان کی طرح طالبان نواز خیال کیا جاتا ہے اور وہ خیبر پختون خواہ میں فوجی آپریشن کے مخالف ہیں۔

فوجی ترجمان کے اعلان کے بعد سہیل آفریدی کا وزیراعلی بننا مشکل

حفیظ اللہ خان نیازی کہتے ہیں کہ کچھ عرصہ پہلے جب بشریٰ بی بی رہا ہوئیں تو یہ بات کی جا رہی تھی کہ انہیں عمران کی جانشین بنایا جا سکتا ہے۔ لیکن جلد ہی انہیں دوبارہ گرفتار کر لیا گیا، اور اب پارٹی میں علیمہ خان کا اثر بڑھتا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی عمران خان کے حامی علیمہ خان کو بطور جانشین قبول کرتے نظر آ رہے ہیں۔ عمران خان نے علیمہ خان پر ملٹری انٹیلیجنس کی ایجنٹ ہونے کا الزام لگانے والے گنڈاپور کو فارغ کر کے علیمہ کی پوزیشن اور بھی مضبوط کر دی ہے۔ تاہم اس فیصلے کے بعد عمران خان کی مشکلات میں کمی کی بجائے اضافے کا امکان ہے۔

Back to top button