انقلاب کا خواب دیکھنے والے عوام کیا سراب کے ہیچھے بھاگ رہے ہیں

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا ہے کہ انقلاب کے خواب دیکھنے والے پاکستانی عوام کو سمجھ جانا چاہیئے کہ وہ ایک سراب کے پیچھے بھاگ رہے ہیں کیونکہ مستقبل قریب یا دور میں پاکستان میں کسی انقلاب کا کوئی امکان نہیں۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ مسئلوں کا حل انقلاب میں نہیں بلکہ صرف اور صرف دستور میں ہی ہوتا ہے۔ اپنے تازہ سیاسی تجزیہ میں سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ آج ہر پاکستانی تبدیلی چاہتا ہے۔ کوئی سیاست دان ہے یا فوجی، کوئی تاجر ہے یا نوکری پیشہ بابو، ہر کوئی موجودہ حالات سے غیر مطمئن ہے اور چاہتا ہے کہ مثبت تبدیلی آئے۔ تبدیلی پر مجموعی اتفاق رائے کے باوجود تبدیلی کے طریق کار اور اس کی تشریح کے بارے میں شدید اختلافات ہیں۔ عسکری قیادت اور حکومت دونوں سمجھتے ہیں کہ معیشت بہتر ہو جائے اور عوام خوشحالل ہو جائیں تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ اپوزیشن کا خیال ہے کہ انکی حکومت چلنے دی جاتی اور سازشیں نہ ہوتیں تو تبدیلی دستک دینے والی تھی۔ ان سب آرا میں سب سے دلچسپ آواز ان لوگوں کی ہے جو مذہبی یا سیاسی تبدیلی کے نام پر انقلاب کو آتا ہوا دیکھ رہے ہیں ۔کچھ سیاسی انتہا پسندوں کی رائے میں فوج کے خلاف انقلاب پنپ رہا ہے جبکہ کچھ مذہبی اصلاح پسندوں کی سوچ ہے کہ یہاں کے مسئلوں کا حل اسلامی انقلاب ہے۔

ہمیں امید ہے کہ یہ سیٹیں ہمیں ہی ملیں گی، بیرسٹر گوہر

لیکن سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ ابھی دور دور تک کسی انقلاب کی توقع نہیں ہے۔ حکومتوں میں تبدیلی یا چہروں کی تبدیلی تو پہلے بھی ہوتی رہی ہے اور آئندہ بھی ہوتی رہےگی لیکن جس انقلاب کی پیش گوئیاں کی جا رہی ہیں وہ سراب محسوس ہوتا ہے۔ ابتدائی دنوں ہی سے پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کی بات شروع ہوئی قرارداد مقاصد لائی گئی لیکن جب 1956ء کا دستور بنایا گیا، پھر 1962ء کا مارشل لائی آئین بنایا اور اسکے ھعد 1973ء کا ایک متفقہ منشور بنایا گیا تو ان سارے دساتیر میں کہیں بھی اسلامی انقلاب سمویا ہوا نظر نہیں آتا ۔البتہ مذہبی سیاسی جماعتوں کے نعروں اور اسلامی انتہا پسندوں کے لائحہ عمل میں اسلامی انقلاب اور جہاد کی بازگشت ضرور سنائی دیتی رہی۔ میری طالب علمانہ رائے میں 1973ء کے آئین کو جب مولانا مودودی ، مولانا مفتی محمود اور مولانا شاہ احمد نورانی کے ساتھ ساتھ صوبائی اور قومی سیاسی جماعتوں کی تائید مل گئی اور چارو ناچار فوج نے بھی اسی کا حلف اٹھانا شروع کر دیا تو یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ پاکستان کی منزل اب کوئی انقلاب نہیں صرف اور صرف آئین پر مکمل عملدرآمد ہے۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ مذہبی ملا ہوں یا لبرل قوتیں، عوام کو انقلاب کے جھوٹے خواب دکھانے والوں کا اصل مقصد انہیں جمہوریت سے دور رکھ کر آمریت اور پاپائیت کے حصار میں بند کرنا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی وزارت عظمی کے دوران بنایا گیا پاکستان کا دستور، دراصل 56 اسلامی ممالک میں سب سے زیادہ جمہوری، اسلامی اور سماجی بہتری کا حامل ہے۔ ڈاکٹر اقبال تو پارلیمنٹ کے ذریعے اجتہاد تک کے قائل تھے۔ ائین روز روز نہیں بنائے جاتے۔ پاکستان میں بہت سوچ سمجھ کر آئین ترتیب دیا گیا تھا اور یہ دنیا کے بہت سے جمہوری ممالک کے دساتیرسے بہت بہتر ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم نے اس آئین پر اس کی روح کے مطابق کبھی عمل نہیں کیا، کبھی فوج، کبھی عدلیہ اور کبھی اہل سیاست نے اس کی خلاف ورزیاں کیں۔

سہیل وڑائچ کے مطابق پاکستان میں جو لوگ سمجھتے ہیں کہ یہاں انقلاب سے ہی معاملات ٹھیک ہو سکتے ہیں میرا ان سے اختلاف ہے ۔انقلاب خونیں ہوتے ہیں اور ان میں مخالف رائے کو روند کر کچل دیا جاتا ہے، پاکستان کی پوری تاریخ میں ہم اختلافات کے باوجود آگے بڑھتے رہے ہیں، اور اب بھی آگے بڑھتے جائیں گے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ پاکستان کی مڈل کلاس اور اکثریت کپتان کے وژن سے متاثر ہے، میری رائے میں دراصل جو لوگ سوچتے تھے کپتان وہی چورن بیچ رہا ہے، چنانچہ بنیادی طور پر لیڈر شپ مڈل کلاس کی سوچ کے ہاتھ لگ گئی ہے، فی الحال عمران خان اس سوچ کا نمائندہ ہے لیکن اگر کپتان نے اس سوچ سے روگردانی کی یا عوام کی خواہشات کو عملی شکل نہ دی تو مڈل کلاس اپنے آدرشوں کے مطابق کوئی نیا لیڈر ڈھونڈ لے گی۔ یہ سلسلہ تب تک جاری رہے گا جب تک کہ لوگوں کی خواہش کے مطابق ریاست میں تبدیلیاں نہیں آ جاتیں۔ وقت آگیا ہے ہر کہ خاص و عام، فوج اور عوام، اور سیاست دان یہ حقیقت تسلیم کر لیں کہ پاکستان کے تمام مسائل کا حل اور آگے بڑھنے کا واحد راستہ صرف اور صرف متفقہ آئین ہے،  انقلاب ہر گز نہیں۔

Back to top button