سہیل وڑائچ کی عمران کو رہا کر کے قومی حکومت بنانے کی تجویز
معروف اینکر پرسن اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے پاکستان کو بڑھتے ہوئے سیاسی اور معاشی بحران سے نکالنے کے لیے عمران خان کو اڈیالہ جیل سے بنی گالہ شفٹ کرنے اور ایک قومی حکومت بنانے کی تجویز دے دی ہے۔
اپنے تازہ تجزیے میں سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ اس وقت سیاست کے دروازے بند ہیں، مکمل ڈیڈ لاک ہے، موجودہ بحران کے حل کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی، محاذ آرائی دونوں فریقوں کا چلن بن گیا ہے، 24 نومبر کو عمران خان کی جانب سے دی گئی فائنل کال کا دن ہے، حکومت اور پی ٹی آئی کے مابین مذاکرات میں کوئی پیش رفت نظر نہیں آتی، ہر طرف گہرا اندھیرا ہی اندھیرا ہے، جلسے جلوس سیاست کا حصہ ہیں لیکن اگر اسلام آباد میں خون خرابہ ہو گیا تو سیاست اور بھی تلخ ہو جائے گی ، نفرتیں مزید بڑھ جائینگی۔
سہیل وڑائچ کہتے ہیں مانا ہماری تمنائیں مر چکی ہیں اور امید کا ٹمٹاتا سا چراغ بھی جلتا نظر نہیں آتا مگر اِس دلِ خوش فہم کو یقین ہے کہ راستہ اب بھی ہے۔ ہر ناامیدی کے ساتھ امید وابستہ ہوتی ہے، ہر مشکل کیساتھ ہی آسانی جڑی ہوتی ہے ،پیچیدہ مسائل کے اندر ہی اس کا سادہ حل پوشیدہ ہوتا ہے، اسلئے مجھے اب بھی راستہ صاف اور انتہائی آسان نظر آ رہا ہے، بس شرط صرف اتنی ہے کہ ہم آنکھیں کھول کر آئینہ دیکھ لیں اور پھر جو آئینہ کہہ رہا ہے اس پر عمل کر لیا جائے۔ خواجہ فرید نے زندگی گزارنے کا جو سادہ ترین طریقہ پیش کیا وہی آج کے بحران کا حل ہے۔ یعنی دونوں فریق زبر نہ بنیں، ضد نہ کریں، وہ لچک دکھائیں اور جھک جائیں، لیکن اگر ایسا نہ کیا تو پھر نتائج بھگتنے کیلئے تیار ہو جائیں۔
سہیل وڑائچ کہتے ہیں اگر حکمران، فوج اور عمران خان ایکدوسسرے کے لیے زبر بنے رہے تو بحران بڑھتا جائیگا جو بالآخر سب کو کھا جائے گا، لیکن اگر سب نے لچک دکھائی اور جھکنے پر آمادہ ہو گئے تو حل بہت سادہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ دوسال قبل میں نے سیاسی بحران کا واحد حل مصالحت کو سمجھتے ہوئے بار بار اس بات کا اعادہ کیا تو نون لیگ، تحریک انصاف اور بھائی لوگوں نے بہت ناک بھوں چڑھائی، پوری قوم تب آستینیں چڑھائے ایک دوسرے کو جھکانے کے چکر میں تھی لہازا وہ کیوں کسی ناچیز کی سنتی۔ فریقین میں سےہر کوئی مکمل اقتدار ،مکمل طاقت اور مکمل اختیار کا خواہاں تھا اور اب بھی ہے۔ ایسے میں لچک کون دکھاتا؟
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نون لیگ والے حکمت ساز اب تک مجھ سے ناراض ہیں۔ انکا موقف یے کہ اگر میں سیاسی مصالحت کی بات کرتا ہوں تو اسکا مطلب عمران کیلئے ریلیف ہے۔ لیکن نون والوں کے علاوہ مجھے انصافیوں نے بھی نہیں بخشا اور الزامات کے وہ طومار باندھےکہ خدا کی پناہ۔ آج تک ان کی جانب سے سوشل میڈیا ہر میرے خلاف گالیاں اور دشنام جاری ہے۔ رہ گئے بھائی لوگ وہ تو کوتوال شہر ہیں جن کی مرضی سے ہٹ کر ہونیوالی ہر بات غداری ہے۔ عسکری دربار تک ویسے بھی میری رسائی نہیں۔
سہیل وڑائچ بتاتے ہیں کہ عمران خان حکومت کے آخری دنوں میں ہم چند دوستوں کو اس بحران کی شدت اور نتائج کا شدید احساس تھا اسلئے ہم نے وکٹ سے باہر نکل کر کھیلنے کی کوشش کی۔ میں خود لندن میں نواز شریف کی خدمت میں حاضر ہوا اور دست بستہ عرض کی کہ آپ کا اقتدار آ رہا ہے اسلئے انتقام کا دائرہ ختم ہونا چاہیے، لیکن انہیں میری بات پسند نہ آئی، اسکے بعد انہوں نے میری بات سننا ہی بند کر دی۔ میں تو عمران خان کے پاس بھی زمان پارک حاضر ہوا اور درخواست کی کہ مصالحت کی طرف قدم بڑھائیں نہیں تو محاذ آرائی بڑھے گی۔ مگر ان سے بھی کوئی مثبت جواب نہ ملا۔ میں نے بھائی لوگوں کو بھی اپنی تحریروں کے ذریعے قائل کرنے کی کوشش کی کہ ملک کا مستقبل سیاسی اور معاشی استحکام سے جڑا ہے، سیاسی مصالحت ہوگی تو معاشی استحکام آئیگا، لیکن افسوس کہ میں تینوں فریقین کو نہ سمجھا سکا، نتیجہ یہ ہے کہ آج پھر نازک موڑ پر کھڑے ہیں۔
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ میری عاجزانہ رائے میں اب بھی راستہ ہے، انتہائی آسان اور سادہ ہے۔ ہم سب نیت کا کھوٹ ختم کریں اور لچک پیدا کریں۔ سب سے بڑے دو مسئلے ہیں، پہلا مسئلہ 9 مئی کے دنگے ہیں اور دوسرا 8 فروری کے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات۔ 9 مئی کے حوالے سے سنا ہے کہ فوجی عدالتیں فیصلے سنا چکی ہیں مگر سپریم کورٹ کے حکم نے انہیں روکا ہوا ہے، لہازا بہتر ہو گا کہ 9 مئی کے کیسز پر نظرثانی اور ملزموں کیخلاف اقدامات کیلئے سپریم کورٹ کی ذمہ داری لگائی جائے، میرا خیال ہے کہ یہ حل سب کیلئے قابل قبول ہوگا۔ دھاندلی کے حوالے سے میں نے 8 فروری کے بعد تجویز دی تھی کہ قومی اسمبلی کے اندر سے دھاندلی کمیشن بنانے پر اتفاق رائے پیدا کیا جائے اور جواباً تحریک انصاف موجودہ پارلیمان کو تسلیم کر لے۔ اسکے بعد عمران خان کو رہا کر کے بنی گالہ میں نظر بند کر دیا جائے اور انہیں ملکی حالات پر اپوزیشن لیڈر اور سابق وزیر اعظم کی طرح بریفنگ دی جائے۔ وہ ضدی ہیں، خود سر ہیں مگر غدار نہیں، وہ بھی ملک سے محبت کرتے ہیں، ہوسکتا ہے کہ وہ قائل ہو جائیں۔ اگر ابتدائی مصالحت ہو جائے تو اس کے بعد پارلیمان کے اندر ہی سے قومی حکومت بنائی جائے جس میں سب جماعتوں کی نمائندگی ہو۔ یہ قومی حکومت معاشی پالیسیوں کے استحکام کیساتھ اگلے انتخابات کو فری اینڈ فیئر بنانے پر کام کرے۔ اس فارمولے پر عمل سے فوج اور تحریک انصاف کے معاملات خود بخود حل ہو جائینگے، سیاسی کشیدگی ختم ہو جائیگی۔ پی ٹی آئی کے بانی اور پارٹی کو ریلیف مل جائے گا، یوں سیاسی استحکام آئیگا تو معیشت پر بھی بہتر اثر پڑے گا۔ اور سیاسی اور معاشی بحران کے خاتمے میں مدد ملے گی۔