بوتل کا جن کھولنے والے اب اس کو قید کرکے دکھائیں


سینیئر صحافی اور اینکر پرسن جاوید چوہدری نے ریاست پاکستان کے فیصلہ سازوں کو مخاطب کرتے ہوئے چیلنج دیا ہے کہ مذہبی انتہا پسندی کا جو جن آپ نے بوتل سے نکالا تھا اب اسے بوتل میں بند کر کے دکھائیں۔ انکا کہنا ہے کہ یہ جن اب آپ کو بھی نہیں چھوڑے گا کیوں کہ اسے اب جو بھی روکنا چاہے گا اس کے قتل کے لیے بھی یہ دعویٰ کافی ہو گا کہ "یہ گستاخ رسول ہے یا یہ ختم نبوت پر یقین نہیں رکھتا” اور لوگ اس پر بھی پل پڑیں گے۔
اپنی تازہ تحریر میں جاوید چوہدری بتاتے ہیں کہ مذہب ایک ذاتی معاملہ ہوتا ہے، اسے صرف ذات تک محدود رہنا چاہیے، کیونکہ مذہب جب ملک اور معاشرے تک چلا جاتا ہے تو پھر اس کا وہی نتیجہ نکلتا ہے جو سیالکوٹ میں نکلا اور آئندہ بھی نکلتا رہے گا۔ لہٰذا فیصلہ ساز اب بھی جاگ جائیں، اور آنکھیں کھول لیں ورنہ نہ تو ہماری آنکھیں بچیں گی اور نہ ہی ہم انہیں کھولنے کے قابل رہیں گے۔ وہ وقت دور نہیں جب ہم میں سے ہر شخص پٹرول کا کین اٹھا کر جلانے کے لیے اپنا ہدف تلاش کر رہا ہو گا اور اسے لاشوں میں سے اپنی پسند کی لاش نہیں مل رہی ہو گی۔
جاوید بتاتے ہیں کہ سیالکوٹ فیکٹری کے بد قسمت مینجر پریانتھا کمار کو اردو پڑھنا نہیں آتی تھی لہٰذا اس نے دیواروں کو پینٹ کے قابل بنانے کے لیے ان پر آویزاں اسٹیکرز اتارنے کا حکم دیا۔ وہ معاملے کی حساسیت سے لا علم تھا ورنہ وہ کبھی یہ غلطی نہ کرتا۔ چند مذہبی ذہنیت والے مزدوروں اس حرکت پر اعتراض کیا۔ لیکن انگلش بولنے والا پریانتھا معاملے کی حساسیت سے واقف سے بے خبر ‘واٹ ہیپن’ واٹ ہیپن کہتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔ ان مزدوروں نے دوسرے مزدوروں کو بتایا۔ وہ اکٹھے ہو گئے، پریانتھا دوبارہ ہال میں آیا تو انھوں نے اسے دھکے دینا شروع کر دیے۔ اسے مارنا بھی شروع کر دیا۔ بات مینجمنٹ تک پہنچی تو فیکٹری مالک اعجاز بھٹی کے بھائی شہباز بھٹی آ گے اور اسے چھڑا کر لے گئے۔ معاملہ رفع دفع ہو گیا۔ یہ صبح دس بجے کا واقعہ تھا۔ لیکن تھوڑی دیر بعد مزدوروں اکٹھے ہو گے اور نعرے بازی شروع کر دی۔ پریانتھا بھاگ کر چھت پر چڑھ گیا اور سولر پینلز کے نیچے چھپ گیا۔ مشتعل مزدور پیچھے لپکے اور اسے تشدد کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ وہ بھاگنے اور بچنے کی کوشش کرتا رہا لیکن ہجوم نے اسے نکلنے نہ دیا۔ کسی راہ گیر نے 11 بج کر 28 منٹ پر ون فائیو پر کال کر دی‘پولیس دوڑ پڑی لیکن ہجوم اس وقت تک پریانتھا کو قتل کر چکا تھا۔ مجمع اسکی نعش گھسیٹ کر سڑک پر بھی لا چکا تھا اور اس پر پٹرول چھڑک کر آگ بھی لگا چکا تھا۔ سفاک لوگ آگ کو تیز کرنے کے لیے جلتی ہوئی لاش پر اپنے مفلر اور چادریں بھی پھینک رہے تھے۔ سیلفیاں بھی بن رہی تھیں اور وڈیوز بھ،‘ سڑک بند تھی لہٰذا پولیس کی گاڑیاں ہجوم میں پھنس گئیں۔ مزدوروں نے اس کے بعد فیکٹری مالکان کو بھی قتل کرنے اور فیکٹری کو آگ لگانے کے نعرے لگانا شروع کر دیے۔ پولیس بہرحال پہنچی اور حالات کو کنٹرول کرنا شروع کر دیا۔ یوں فیکٹری بھی بچ گئی اور مالکان بھی لیکن پاکستان فوت ہو گیا۔ انسانیت کا جنازہ نکل گیا۔
جاوید چودھری کہتے ہیں کہ میں پریانتھا کماراکی ہرگز ہرگز وکالت نہیں کرتا۔ میں سردست مان لیتا ہوں وہ واقعی گناہ گار تھا اور اس نے جان بوجھ کر اسٹیکر پھاڑے تھے لیکن سوال یہ ہے کیا اسٹیکرز پھاڑنے کی سزا موت ہے اور موت بھی ایسی جس میں ہجوم دھڑکتے تڑپتے زندہ انسان کو ڈنڈوں اور اینٹوں کے ساتھ قتل کرے۔ اس کی کھوپڑی توڑے، نیم برہنہ لاش کو سڑک پر گھسیٹے اور آخر میں اسے آگ لگا دے اورپھر اس نبیؐ کے نعرے لگائے جسے اللہ نے رحمت اللعالمینؐ بنا کر بھیجا تھا اورجس نے زندگی بھرکسی جانور کی طرف بھی نفرت سے نہیں دیکھا تھا لیکن اس کے امتی رسالت کا نعرہ لگا رہے تھے اور لاش کو اینٹوں اور ڈنڈوں سے قیمہ بھی بنا رہے تھے اور آخر میں اس لاش کو سڑک پر آگ لگائی اور اس آگ کو بھانبڑ بنانے کے لیے اس میں اپنے مفلر اور چادریں پھینکتے جا رہے تھے اور پولیس اپنی جانوں کے خوف کی وجہ سے ہجوم کے قریب نہیں جا رہی تھی۔ جاوید سوال کرتے ہیں کہ کیا دنیا میں اس کی کوئی جسٹی فکیشن ہے؟ کیا دنیا کا کوئی مذہب، کوئی قانون، کوئی روایت اس کی اجازت دیتا ہے؟ آج افریقہ کے ملکوں میں بھی ایسا نہیں ہوتا جب کہ ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کسی کو بھی گستاخ رسول ڈکلیئر کر کے اسے سڑک پر مار دیتے ہیں اور اس کی لاش تک جلا دیتے ہی۔
جاوید چودھری کہتے ہیں خدا کے لیے آنکھیں کھولیں، ہمارے عوام کے دل نفرتوں سے بھرے ہوئے ہیں اور مہنگائی، بے روزگاری اور لاقانونیت اس نفرت میں پٹرول بھر رہی ہے اور لوگوں کو اب مذہبی نعرہ بھی مل گیا ہے۔ یہ مذہبی نعرہ لگاتے ہیں اور کسی پر بھی حملہ کر دیتے ہیں اور ریاست تماشا دیکھنے اور ایف آئی آر درج کرنے کے سوا کچھ نہیں کر پاتی، کیا ہم ملک ہیں اور کیا ہم انسان بھی ہیں؟ بقول جاوید میں ریاست سے پوچھنا چاہتا ہوں آپ نے یہ جن خود بوتل سے نکالا تھا، آپ اب اسے بوتل میں بند کر کے دکھائیں، یہ اب آپ کو بھی نہیں چھوڑے گا کیوں کہ اسے اب جو بھی روکنا چاہے گا اس کے قتل کے لیے بھی یہ افواہ یا یہ دعویٰ کافی ہو گا کہ ’’یہ گستاخ رسول ہے یا یہ ختم نبوت پر یقین نہیں رکھتا‘‘ اور لوگ اس پر بھی پل پڑیں گے۔
جاوید چوہدری سوال کرتے ہیں کہ کیا بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح نے ایسے پاکستان کا خواب دیکھا تھا؟ کیا ہم ایسا پاکستان بنانا چاہتے تھے؟اگر ہاں تو پھر مبارک ہو اور اگر نہیں تو پھر آگے بڑھیں، اپنی غلطیوں کا اعتراف کریں اور ملک بچائیں کیونکہ پاکستان اب اس طرح چل سکے گا اور نہ بچ سکے گا۔ ہم بچپن سے یہ محاورہ سنتے آ رہے ہیں جو بوؤ گے وہ کاٹو گے، یہ محاورہ غلط ہے، انسان زندگی میں اگر ایک بیج بوتا ہے تو وہ صرف ایک بیج نہیں کاٹتا اسے سینکڑوں ہزاروں کاٹنے پڑتے ہیں کیوں کہ ایک بیج ایسے پودے اور درخت پیدا کر دیتا ہے جس پر سینکڑوں ہزاروں بیج اور اسٹے ہوتے ہیں، ہم نے اس ملک کی بنیاد نفرت کے بیج پر رکھی تھی لہٰذا ہم آج نفرت کے ہزاروں اسٹے کاٹ اور کھا رہے ہیں، ہمیں آج ہر نظر نفرت سے ابلتی اور کاٹتی ہوئی دکھائی دیتی ہے اور یہ سلسلہ کم نہیں ہو رہا ہے، یہ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔
جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ لڑائی آج مذہب پسندوں اور لبرلز کے درمیان ہے، یہ کل زیادہ عاشق رسولؐ اور کم عاشق رسولؐ میں تبدیل ہو جائے گی اور پھر ملک میں کسی کی بھی جان لینے کے لیے یہ کہہ دینا کافی ہو گا فلاں پورا درود شریف نہیں پڑھتا یا یہ رسول اللہ ﷺ کا نام لیتے ہوئے محمدؐ پر زور نہیں دیتا اور پھر وہ شخص بھی پریانتھا کمارا بن جائے گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس انجام سے بچائے لیکن ہم بڑی تیزی سے اس طرف دوڑ رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پریانتھا کمارا کی لاش ہمیں کیوں ہانٹ کرتی رہے گی؟
جاوید چوہدری سوال کرتے ہیں کہ کیا آج کسی بھی شخص کو مروانے کے لیے یہ کہنا کافی نہیں ہو گا کہ وہ پورا درود شریف نہیں پڑھتا یا وہ نماز کے دوران پاؤں زیادہ یا کم کھولتا ہے؟ ہم دراصل کنوئیں میں بند ہیں، ہمیں آج عمرے کے لیے بھی ویزے نہیں ملتے، اور ہم مانیں یا نہ مانیں لیکن اس واقعے نے ہمارا رہا سہا بھرم بھی ختم کر دیا ہے۔ ہم انتہا پسند ثابت ہوتے چلے جا رہے ہیں بس اعلان باقی ہے اور ہم اگر نہ سنبھلے تو یہ اعلان بھی ہو جائے گا۔ جاوید کہتے ہیں کہ میں بار بار عرض کرتا رہا ہوں اور میں آخری بار عرض کر رہا ہوں کہ مذہب ایک ذاتی معاملہ ہوتا ہے، اسے صرف ذات تک محدود رہنا چاہیے، کیونکہ مذہب جب ملک اور معاشرے تک چلا جاتا ہے تو پھر اس کا وہی نتیجہ نکلتا ہے جو اس وقت پاکستان میں نکل رہا ہے لہذا فیصلہ ساز اپنی آنکھیں کھولیں اس سے پہلے کے پاکستان کی آنکھیں بند ہو جائیں۔

Back to top button