سویلینز کے ملٹری ٹرائل کیس میں سپریم کورٹ انڈر ٹرائل نہیں: آئینی بینچ

فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان ریمارکس دیے ہیں کہ اس کیس میں سپریم کورٹ انڈر ٹرائل نہیں ہے،عدالت نے آئین اور قانون کےمطابق فیصلہ کرنا ہے۔
فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کیخلاف انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 7 رکنی آئینی بینچ کررہا ہے۔
سماعت کے آغاز میں اعتزاز احسن کےوکیل لطیف کھوسہ روسٹرم پر آئے اور کہ کہ آج عمران خان کے وکیل عذیر بھنڈاری نے دلائل دینےتھے، بھنڈاری صاحب سے بات کرلی ہے،آج میں دلائل دوں گا۔
آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے کہاکہ آپ لوگ آپس میں طے کرلیں، ہمیں اعتراض نہیں کہ دلائل کون پہلےدے کون بعد میں،اعتزاز احسن نے سلمان اکرم راجا کے گزشتہ روز کےدلائل پر اعتراض کیا اور کہاکہ سلمان اکرم راجا بھی میرے وکیل ہیں۔
اعتزاز احسن نے کہاکہ سلمان اکرم راجہ نے کل جسٹس منیب اختر کے فیصلےسے اختلاف کیا تھا،میں نے سلمان اکرم راجہ کو ایسی کوئی ہدایت نہیں دی تھی،جسٹس منیب اختر کے فیصلےسے مکمل اتفاق کرتا ہوں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہاکہ اعتراض شاید صرف آرٹیکل 63 اے والے فیصلے کےحوالے پر ہے، سلمان اکرم راجا نے کہاکہ جسٹس منیب کے فیصلےکے صرف ایک پیراگراف سے اختلاف کیاتھا، کل دلائل ارزم جنید کی جانب سےدیے تھے اور ان پر قائم ہوں،میڈیا میں تاثر دیاگیا جیسے پتا نہیں میں نےکیا بول دیا ہے، آپ کے سوال کو سرخیوں میں رکھاگیا کہ عالمی قوانین میں سویلینز کے کورٹ مارشل کی ممانعت نہیں۔
جسٹس نعیم اختر افغان نےکہا کہ جو سوال پوچھا تو وہ سب کے سامنےہے، سوشل میڈیا نہ دیکھا کریں ہم بھی نہیں دیکھتے،سوشل میڈیا کو دیکھ کر نہ اثر لینا ہےنہ اس سے متاثر ہوکر فیصلے کرنے ہیں،
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیےکہ میڈیا کو بھی رپورٹنگ میں احتیاط کرناچاہیے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہاکہ میرے خلاف بہت خبریں لگتی ہیں بہت دل کرتا ہےجواب دوں،میرا منصب اس بات کی اجازت نہیں دیتاکہ جواب دوں۔
سلمان اکرم راجہ نےکہا کہ بغیر کسی معذرت کے اپنےدلائل پر قائم ہوں،جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیےکہ سوال تو ہم صرف مختلف زاویے سمجھنے کےلیے کرتے ہیں، ہوسکتا ہےہم آپ کے دلائل سے متفق ہوں۔
لطیف کھوسہ نےدلائل کا آغاز کردیا،اعتزاز احسن نے اپنی درخواست کا نمبر تبدیل ہونےپر اعتراض اٹھایا اور کہامیری درخواست پہلے دائر ہوئی تھی۔
اعتزاز احسن نے کہاکہ جواد ایس خواجہ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ہیں،جواد ایس خواجہ کی بعد میں دائر درخواست کو میرا کیس نمبر الاٹ کر دیا گیا۔
جسٹس امین الدین خان نے کہاکہ ایسا نہ کریں ایسی باتوں سے اور کہیں پہنچ جائیں گے،لطیف کھوسہ نے کہاکہ پوری قوم کی نظریں اس کیس پر ہے، اس کیس کی وجہ سے سپریم کورٹ انڈر ٹرائل ہے۔
جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیےکہ سپریم کورٹ انڈر ٹرائل نہیں ہے، عدالت نے آئین اور قانون کےمطابق فیصلہ کرنا ہے۔
لطیف کھوسہ نے کہاکہ عدالتی فیصلوں کا تاریخ پھر جائزہ لیتی ہے جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ لطیف کھوسہ صاحب آپکا چشمہ آگیا ہے،قانونی نکات پر دلائل شروع کریں،پہلے سیکشن ٹو ڈی کی قانونی حیثیت پر دلائل دیں۔
جسٹس امین الدین خان نے کہاکہ سیکشن ٹو ڈی کو نو اور دس مئی کیساتھ مکس نہ کریں،پہلے ان سیکشن کی آزادانہ حیثیت کا جائزہ پیش کریں،سیکشن ٹو ڈی کا نو مئی دس مئی پر اطلاق ہوتا ہےیا نہیں۔
لطیف کھوسہ نے مؤقف اپنایاکہ آئین میں بنیادی حقوق کو تحفظ فراہم کیاگیا ہے،سیکشن ٹو ڈی برقرار نہیں رکھا جاسکتا،ملٹری کورٹس تشکیل کو تاریخی تناظر میں دیکھنا ہوگا۔
لطیف کھوسہ نےکہا کہ سیکشن ٹو ڈی کا قانون 1967 میں لایا گیا،سیکشن ٹو ڈی کی وجہ سے پاکستان ٹوٹ گیا،ملک ٹوٹ کر دوسرا حصہ بنگلہ دیش بن گیا، حمودالرحمن کمیشن رپورٹ میں لکھا گیا کہ وہاں ادارے کے خلاف نفرت پیدا ہوئی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ کیا آئین میں قانون سازی کرنے پر کوئی ممانعت ہے،لطیف کھوسہ نے مؤقف اپنایاکہ ملٹری کورٹس کےلیے انہیں 21 ویں ترمیم کرنا پڑی، سویلین کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل نہیں ہو سکتا، ملٹری ٹرائل میں ججز اور ٹرائل آزاد نہیں ہوتا،اس لیے 9 مئی پر جوڈیشل کمیشن بنانےکی بات کی گئی۔
جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیےکہ کھوسہ صاحب آپ پھر دوسری طرف چلےگئے ہیں،میں کسی جماعت کی نمائندگی نہیں کررہا، لطیف کھوسہ نے کہاکہ ساری عمر قانون کی حکمرانی کی جدوجہد کی ہے،سیکشن ٹو ڈی اسلامی تعلیمات کے منافی ہے،ملٹری ٹرائل خفیہ کیا جاتاہے۔
جسٹس امین الدین خان نےکہا کہ خواجہ حارث نے بتایاکہ شفاف ٹرائل کو پورا طریقہ کار ہے،پروسیجر اگر فالو نہیں ہوتا تو وہ الگ ایشو ہے،
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیےکہ کھوسہ صاحب تاریخ میں جائیں تو آپ کی بڑی لمبی پروفائل ہے،آپ وفاقی وزیر،سینیٹر،رکن اسمبلی،گورنر اور اٹارنی جنرل رہ چکے ہیں،آپ نے ان عہدوں پر رہتےہوئے ٹو ڈی سیکشن ختم کرنے کےلیےکیا قدم اٹھایا،ہماری طرف سے بےشک آج پارلیمنٹ اس سیکشن کا ختم کر دیں ۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہاکہ پارلیمنٹ میں آپ کچھ اور بات یہاں کچھ اور بات کرتےہیں،فوجی عدالتیں بعد میں بنی،سقوط ڈھاکہ کی وجوہات کچھ اور تھیں۔
لطیف کھوسہ نےکہا کہ آپ کے سامنےہیں 26 ترمیم کیسے پاس ہوئی،آپ فیصلہ دیں ہم فیصلہ پر عمل درآمد کروائیں گے،سویلین کا ٹرائل ختم کرنےپر عوام آپ کے شیدائی ہوجائیں گے، 26 ترمیم کیسے پاس ہوئی زبردستی ووٹ ڈلوائے گئے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیےکہ 26 ترمیم پر کس رکن نےاستعفی دیا، لطیف کھوسہ نے کہا کہ اختر مینگل نے رکن اسمبلی سے استعفی دیا۔
لطیف کھوسہ کا کہنا تھاکہ ہم مضبوط فوج چاہتےہیں جس کےساتھ عوام بھی کھڑی ہو، چاہتے ہیں فوج ٹرائلز کے معاملے سے باہر نکلے، آرٹیکل 175 کے خلاف تمام قانون سازی کالعدم ہوتی رہی ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نےدریافت کیاکہ 21ویں ترمیم میں فوجی عدالتوں کو کالعدم کیوں نہیں قرار دیا گیا، جس پر لطیف کھوسہ کا موقف تھاکہ 21ویں آئینی ترمیم کو جنگی صورت حال اور 2 سال کی مدت کی وجہ سے کالعدم قرار نہیں دیا گیا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا 4 سال فوجی عدالتیں قائم رہنے سے دہشت گردی ختم ہوگئی، لطیف کھوسہ نے کہاکہ آج اخبار میں خبریں دیکھ کر شرم آئی کہ لوگوں کو چن چن کر گولیاں ماری گئیں،سندھی، پنجابی بلوچی اور پٹھان کی تفریق سے نکلنا ہوگا۔
لطیف کھوسہ کاکہنا تھاکہ بدقسمتی سے 18ویں آئینی ترمیم سے بھی صوبائیت کو ہوا ملی، فوج آئینی دائرے میں رہتے ہوئے دہشت گردی کا جڑ سے خاتمہ کرے، عدالت فوج کو ٹرائلز سے نکال کر ان کا احترام کرائے،دنیا میں جہاں بھی سازش ہوئی پہلے فوج کو عوام سے دور کیا گیا۔
لطیف کھوسہ کےمطابق سب ادارے آئین کے دائرے میں رہیں تو مسئلہ حل ہو جائے گا، اتنی بڑی فوج ہے پھر بھی دہشتگردی کیوں ختم نہیں ہورہی، جس پر جسٹس مسرت ہلالی بولیں؛ آپ ایم این اے ہیں یہ باتیں پارلیمنٹ میں کریں۔
جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھاکہ یہ مسائل پارلیمنٹ کے حل کرنےوالے ہیں،جس پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ اسمبلی میں بولنے لگتا ہوں تو مائیک بند کردیا جاتا ہے، جسٹس مسرت ہلالی نے لطیف کھوسہ کو مخاطب کرتےہوئے کہاکہ آپ 26 ویں ترمیم منظور کرتے ہیں پھر ہمیں کہتے ہیں کالعدم قرار دیں۔
سنیارٹی ایشو پر 5 ججز سے کوئی تنازع نہیں، ذرائع اسلام آباد ہائیکورٹ
اس موقع پر لطیف کھوسہ کا استدلال تھاکہ اسمبلی میں تو سارجنٹ ایٹ آرمز کے ذریعے اٹھوا کر باہر پھینک دیا جاتا ہے،جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیاکہ کیا آپ نے آئینی ترمیم کی مخالفت میں ووٹ دیا تھا،لطیف کھوسہ نےکہا کہ پی ٹی آئی نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔
جس پر جسٹس جمال مندوخیل کا فوری ردعمل تھاکہ آپ کا کام مخالفت کرنا تھا اپنا کردار تو ادا کرتے،تاہم سنبھلتے ہوئے نےکہاکہ خیر اس بات کو چھوڑیں یہ سیاسی بات ہوجائے گی،