پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت سول نافرمانی کی کال سے حیران اور پریشان

تحریک انصاف کے اندرونی ذرائع کے مطابق پارٹی کی مرکزی قیادت اسلام اباد کے فائنل احتجاج کی ناکامی کےباوجود عمران خان کی جانب سے سول نافرمانی کی کال دیے جانے پر حیران اور پریشان ہے کیونکہ ایسے فیصلوں سے نہ صرف پارٹی کی ساکھ متاثر ہو رہی ہے بلکہ ورکرز بھی بد دل ہوتے جا رہے ہیں۔
سینیئر صحافی انصار عباسی کی ایک رپورٹ کے مطابق تحریک انصاف کی تقریباً پوری قیادت حیران ہے کہ جیل میں قید اُن کے رہنما اور بانی چیئرمین نے دوبارہ بغیر کسی مشاورت کے اب یہ کیا اعلان کر دیا ہے۔ عمران خان نے سول نافرمانی کا اعلان سوشل میٖڈیا کے ذریعے کیا ہے۔ بانی پی ٹی آئی نے کہا ہے کہ اگر پہلے مرحلے میں اُن کے مطالبات نہ مانے گئے تو وہ بیرون ملک آباد پاکستانیوں سے اپیل کریں گے کہ وہ پاکستان پیسے بھیجنا بند کر دیں اور بائیکاٹ مہم چلائیں۔ اُنہوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ دوسرے مرحلے میں وہ اس سے بھی آگے جائیں گے۔
عمران خان نے حکومت کے سامنے جو دو مطالبات رکھے ہیں، اُن میں ایک یہ ہے کہ انڈر ٹرائل سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے جبکہ دوسرا مطالبہ ہے کہ 9 مئی 2023 اور 26 نومبر 2024 کے واقعات کی شفاف تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن بنایا جائے۔ ان مطالبات کے ماننے کیلئے عمران خان نے 14 دسمبر تک کا وقت دیا ہے۔ تحریک انصاف کے کسی رہنما سے مشاورت کیے بغیر اس اعلان پر پارٹی رہنما پریشان ہیں کہ خان صاحب نے یہ پھر کیا کر دیا۔ ان کا گلہ یہ ہے کہ اتنا اہم اعلان بغیر کسی مشاورت اور بغیر کسی کو بتائے کیا گیا ہے۔ ان پی ٹی آئی رہنمائوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ سول نافرمانی کی جس تحریک کا عمران نے اعلان کر دیا ہے اُس پر عمل درآمد نہیں ہو سکتا اور ماضی کی طرح سول نافرمانی کی یہ تحریک بھی ناکام ہی ہو گی۔
پارٹی قیادت کے مطابق عمران نے سوچا ہو گا کہ اُن کے اعلان کے بعد بیرون ملک بسنے والے پاکستانی پیسہ بھیجنا بند یا کم کر دیں گے جس سے پاکستانی ترسیلات زر میں کمی ہو گی اور یوں ملک معاشی مشکلات کا شکار ہو گا جس سے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ عمران خان کے مطالبات ماننے پر مجبور ہو جائیں گی۔ ان کا کہنا ہے کہ عمران خان کی یہ سوچ مثبت نہیں بلکہ منفی ہے۔ یاد رہے کہ ترسیلات زر کا تعلق اُن اوورسیز پاکستانیوں کے ساتھ ہے جو ہر ماہ یا کچھ عرصہ کے بعد پاکستان میں بسنے والے اپنے بیوی بچوں، ماں باپ یا خاندان کے دوسرے افراد اور رشتہ داروں کو خرچہ بھیجتے ہیں۔ اب اگر عمران یہ چاہتے ہیں کہ باہر کام کیلئے جانے والوں کی بڑی تعداد یا بیرون ملک بسنے والے پاکستانی اپنے بیوی بچوں، ماں باپ اور دوسرے رشتہ داروں کو بھیجا جانے والا خرچہ کم کر دیں تو ایسا ممکن ہی نہیں۔ نہ ہی کوئی اور اوورسیز پاکستانی جو پاکستان میں اپنے لیے زمین لینا یا گھر بنانا چاہتا ہے، وہ عمران کی بات سنے گا۔
سینیئر صحافی انصار عباسی کا کہنا ہے کہ ماضی میں جب عمران خان حکومت کا خاتمہ ہوا تھا تو ان کا خیال تھا کہ اس کے رد عمل میں بیرون ملک سے ترسیلات زر میں کمی آئے گی، لیکن اس کے برعکس ترسیلات زر میں ریکارڈ اضافہ ہو رہا ہے۔ تحریک انصاف کے رہنمائوں کا بھی یہی خیال ہے کہ نہ تو اوورسیز پاکستانی پاکستان پیسہ بھیجنا بند کریں گے اور نہ ہی یہاں رہنے والے اپنے بجلی اور گیس کے بل جلائیں گے کیوں کہ ایسا نہ 2014 میں ہوا نہ اب ممکن ہے۔ ذرائع کے مطابق پارٹی رہنمائوں نے اپنی مشاورت کے دوران یہ بھی کہا کہ بجلی و گیس کے بل نہ دینا تو پارٹی رہنمائوں کیلئے بھی ممکن نہیں ہو گا۔
یاف رہے کہ 2014 کے دھرنے کے دوران عمران نے سول نافرمانی کی تحریک کا اعلان کیا، بجلی گیس کے بل جلائے اور عوام سے مطالبہ کیا کہ اس تحریک میں بھرپور حصہ ڈالیں لیکن پھر بجلی کٹنے پر اہنے زمان پارک اور بنی گالہ والے گھروں کے بل سب سے پہلے جمع کرا دیے۔ لہازا وہ تحریک بھی ناکام ہوئی اور اب بھی ایسی کسی تحریک کا نتیجہ مختلف نہیں ہو گا۔ اسی لیے کچھ پارٹی رہنما عمران خان کو سمجھانے اور اس اعلان کو واپس لینے کیلئے جیل میں اُن سے ملاقات کریں گے۔ تاہم خان صاحب مانتے ہیں کہ نہیں اس کا کسی کو کوئی اندازہ نہیں۔ کہا جا رہاہے کہ عمران خان نے یہ اپنا آخری کارڈ کھیلا ہے جو ناکام رہا تو ائندہ وہ کسی قسم کی کوئی احتجاجی کال دینے کی پوزیشن میں نہیں رہیں گے۔