ایران اور اسرائیل جنگ نے عمران کی رہائی کی تحریک بھی واڑ دی

ایران اور اسرائیل کی جنگ نے نہ صرف عمران خان کو اپنی رہائی کے لیے مجوزہ احتجاجی تحریک موخر کرنے پر مجبور کر دیا ہے بلکہ ملک کو درپیش دیگر مسائل بھی پس پشت چلے گئے ہیں۔ اب سارا فوکس ایران اور اسرائیل کی جنگ پر ہو چکا ہے جو پاکستانی میڈیا کا سب سے ذیادہ بکنے والا موضوع بن چکی ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ وفاقی بجٹ کے بعد میڈیا میں حکومتی فیصلوں پر جو تنقید ہوتی تھی وہ بھی نظر نہیں آ رہی۔
مشرق وسطی کے اس تنازعے نے پاکستانی میڈیا اور عوامی توجہ کو مکمل طور پر اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، جس کے نتیجے میں عمران خان کی مجوزی تحریک، وفاقی بجٹ پر عوامی ردعمل، مہنگائی، تعلیم و صحت کے بحران، سپریم کورٹ میں لگے اہم کیسز ، شدید گرمی کی لہر اور دہشت گردی جیسے موضوعات اب پسِ منظر میں جاتے دکھائی دے رہے ہیں۔
حالیہ بجٹ میں حکومت کی طرف سے کئی ایسے اعلانات بھی سامنے آئے ہیں جن پر عوام کی طرف سے سخت عدم اطمینان کا اظہار کیا جا رہا ہے لیکن اسے میڈیا میں جگہ نہیں مل پا رہی۔ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روزگاری اور اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں اضافہ عام آدمی کی زندگی کو بری طرح متاثر کر رہا ہے۔ دوسری طرف گرمی کی شدید لہر، پانی کی قلت اور لوڈشیڈنگ کے اثرات شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ لیکن ماضی کی طرح اس بار میڈیا میں ان مسائل پر بات نہیں ہو رہی ہے چونکہ ساری ریٹنگ اسرائیل اور ایران کی جنگ کی کوریج کو مل رہی ہے۔
سینئر صحافی حامد میر کا کہناہے کہ پاکستانی میڈیا کا سارا فوکس ایران اسرائیل تصادم پر ہونا بالکل درست ہے۔ ان کے بقول یہ بین الاقوامی کشیدگی کا باعث بننے والا تنازعہ پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے میڈیا کی توجہ کا مرکز ہے اور لوگ اسی بارے دیکھنا، پڑھنا اور سننا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا، ”جب جنگ گھر کی دہلیز پر پہنچ جائے، امریکی صدر ٹرمپ تہران کو خالی کر دینے کی بات کریں اور پاکستان کا مخالف ہمسایہ اسرائیل کے ساتھ ملا ہوا ہو تو پھر کون ہے جو قومی اسمبلی کی تقریروں یا عمران خان کی رہائی کی خبروں کا متلاشی ہوگا۔ انکا کہنا تھا کہ اگر اسرائیل نے کسی اور ملک پر حملہ کیا ہوتا تو کم تشویش کی بات تھی لیکن ایران تو ہمارا ہمسایہ اور برادر اسلامی ملک ہے یہی وجہ یے کہ پاکستان مخالف ایران کے بعد پاکستان کی باری آنے کی بات کر رہے ہیں، ایسے میں کسی اور موضوع کی بجائے اس تنازعے بارے لوگوں کی دلچسپی ایک فطری عمل ہے۔
حامد میر کا کہنا تھا کہ پاکستانی حکومت کو ایران کے حوالے سے شدید دباؤ کا سامنا ہے۔ پاکستانی میڈیا گریٹر اسرائیل کے مجوزہ منصوبے پر بات کر رہا ہے ۔ ”اب تو ہماتی حکومت بھی یہ تسلیم کر چکی ہے کہ کچھ با اثر ممالک نے پاکستان کو ایران کے خلاف انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کی قرارداد میں ووٹ دینے کو کہا لیکن پاکستان نے صاف انکار کردیا۔ ان حالات میں اگر حکومت ایران کی حمایت میں کھل کر نا آتی تو اس کے خلاف تحریک شروع ہو سکتی تھی۔ اب اس صورتحال میں میڈیا عوامی امنگوں سے اپنے آپ کو کیسے الگ کر سکتا ہے۔‘‘ دوسری طرف بعض سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ عامی منظر نامے پر میڈیا کی اس غیرموجودگی سے حکومت کی جوابدہی متاثر ہوتی ہے، جبکہ اپوزیشن، سول سوسائٹی اور عوام کی آواز کمزور ہو جاتی ہے۔ مقامی مسائل کو نظرانداز کرنے سے سازشی نظریات، افواہوں اور غلط معلومات کو پھیلنے کا موقع ملتا ہے، جو مزید بے چینی پیدا کرتے ہیں۔
تاہم ناقدین کا کہنا یے کہ جنگ کی کوریج جائز سہی، لیکن وہ سارے ایشوز جو شہریوں کی زندگیوں کو متاثر کرتے ہیں میڈیا کو ان پر بھی فوکس کرنا چاہیے، انکا کہنا یے کہ بے جا حکومتی ٹیکسز، اشرافیہ کے لیے مراعات اور انسانی حقوق کو متاثر کرنے والی قانون سازی کو بھی ہمارے میڈیا کو ذہن میں رکھنا چاہیے۔ ان کا کہنا ہے کہ جنگی کوریج کی وجہ سے اس مرتبہ وفاقی حکومت تنقید سے بچ گئی ہے اور اسے اپنا بجٹ بغیر زیادہ تنقید کے منظور کرنے میں آسانی ہو گی۔