ڈاکٹر قدیر خان نے ایرانی نیوکلیئر پروگرام آگے بڑھانے میں کیسے مدد کی؟

بہت کم لوگ اس حقیقت سے آشنا ہیں کہ امریکہ اپنے اتحادی اسرائیل کی مدد سے ایران کے جس نیوکلیئر پروگرام کو تباہ کرنے کے در پے ہے وہ پروگرام دراصل امریکہ نے ہی شروع کروایا تھا۔ 1950 کی دہائی میں رضا شاہ کے دور میں امریکہ نے ایران کو اپنا ایٹمی پروگرام شروع کرنے میں مدد فراہم کی تھی۔ لیکن جب انقلاب ایران کے بعد امریکہ پیچھے ہٹ گیا تو ایران نے مختلف دوست ممالک سے مدد حاصل کرنے کی کوشش شروع کی۔
اس دوران ایران نے نامعلوم اداروں سے نیوکلیئر منصوبے اور سینٹری فیوجز حاصل کیے۔ یہ الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ پاکستانی ایٹمی پروگرام کے خالق ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ریاست کی مرضی کے بغیر ایران کا نیوکلیئر پروگرام آگے لے جانے میں مدد کی جس کے ثبوت امریکہ نے جنرل پرویز مشرف کو فراہم کر دیے جس کے بعد انہیں ان کی وفات تک ان کے گھر میں نظر بند کر دیا گیا تھا۔
دراصل یہ کہانی 1951 سے شروع ہوتی ہے جب مغرب سے اعلیٰ تعلیم یافتہ ایرانی صدر محمد مصدق نے ایران کے آئل پروگرام کو قومیانے کا فیصلہ کیا۔ امریکہ کو یہ فیصلہ قبول نہیں تھا۔ یوں امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے اور برطانوی خفیہ ایجنسی کی مدد سے صدر محمد مصدق کو اقتدار سے بے دخل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔ کولمبیا یونیورسٹی کے ایک تحقیقی مقالے کے مطابق اس منصوبے کا مقصد یہ تھا کہ امریکہ ایران میں مغربی حمایت یافتہ صدر کو برسر اقتدار لائے اور ایسا ہی کیا گیا۔ صدر مصدق کی اقتدار سے بے دخلی کے بعد 1953 میں ایران کے شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والے محمد رضا شاہ پہلوی کو صدر بنایا گیا جو سیکولر ہونے کے علاوہ مغربی حمایت یافتہ بھی تھے اور کمیونزم کے خلاف تھے۔
رضا شاہ نے امریکہ سے اربوں ڈالرز کی امداد کی خاطر ایران کے 80 فیصد تیل کے ذخائر امریکہ اور برطانیہ کے حوالے کر دیے۔ تاہم ایرانی عوام کو ملکی معاملات میں بیرونی دخل اندازی قبول نہیں تھی لہذا لوگ ان کے خلاف ہونا شروع ہو گئے۔ دوسری جانب رضا شاہ نے ایک خفیہ فورس قائم کرنے کے بعد اسکے ذریعے اپنے مخالفین کو قتل کرنا شروع کر دیا۔ اس دوران امریکہ نے ایران کو ایٹمی پروگرام شروع کرنے میں مدد فراہم کرنا شروع کی اور یوں ایران میں ایٹمی پروگرام کا آغاز ہوا۔ اس دوران امریکہ کے ایٹمز فار پیس پروگرام (Atoms for Peace Program) کے تحت ایران کو ایٹمی ٹیکنالوجی، نیوکلیئر فیول، ٹریننگ، لیبارٹریز اور پاور پلانٹس بنانے میں مدد فراہم کی گئی جس کا مقصد جوہری توانائی سے بجلی پیدا کرنا تھا۔
اسکے بعد 1967 میں امریکہ کی جانب سے ایران کو پہلا پانچ میگا واٹ کا نیوکلیئر ریسرچ ری ایکٹر فراہم کیا گیا، جس کا نام تہران ریسرچ ری ایکٹر رکھا گیا۔ پھر ایران نے فرانس، جرمنی، نمیبیا اور جنوبی افریقہ کے ساتھ مختلف جوہری توانائی کے اربوں ڈالرز کے معاہدے کیے۔ جرمنی کی کرافٹ ورک نامی کمپنی نے ایران کی نیوکلیئر پاور پلانٹ بنانے میں مدد کی۔ رضا شاہ کے دور میں 1974 میں اٹامک انرجی آرگنائزیشن آف ایران کی بنیاد رکھی گئی۔ رضا شاہ ملک میں 20 نیو کلیئر پاور پلانٹس بنانے کا ارادہ رکھتے تھے تاکہ تیل سے بننے والی بجلی کو نیوکلیئر پر منتقل کر سکیں اور تیل کو بیچا جا سکے۔
ایرانی انقلاب سے پہلے پلانٹ کے ایک حصے نے کام شروع کر دیا تھا۔ 70 کی دہائی میں رضا شاہ کے خلاف بغاوت شروع ہوئی اور 1979 میں ایرانی انقلاب کے دوران رضا شاہ پہلوی علاج کی غرض سے امریکہ چلے گئے۔ رضا شاہ کے امریکہ جانے پر ایران میں طلبہ نے امریکی سفارت خانے پر دھاوا بول دیا اور 60 امریکی سفارت کاروں کو یرغمال بنا لیا۔ یہ سفارت کار 15 مہینے تک یرغمال رہے۔ ایران میں 1979 انقلاب کے بعد مغرب مخالف آیت اللہ خامنائی ایران کے صدر منتخب ہو گئے اور امریکہ کی جانب سے ایٹمی پروگرام میں مدد روک دی گئی۔
کولمبیا یونیورسٹی کے تحقیقی مقالے کے مطابق تاہم دلچسپ بات یہ تھی کہ خامنہ ای ایٹم بم کو غیر اسلامی اور غیر شرعی سمجھتے تھے۔ خامنہ ای نے اس وقت سے اب تک مختلف بیانات میں کہا کہ اسلام میں ایٹم بم بنایا اور استعمال کرنا ناجائز ہے۔ انہوں نے 2022 میں ماہرین کے ایک اجلاس سے خطاب میں کہا ’مغرب ہمیں ایٹم بم بنانے سے روک رہا ہے لیکن اگر ہم یہ بنانا چاہیں تو کوئی ہمیں نہیں روک سکتا، لیکن یہ اسلامی اقدار ہے جس کی وجہ سے ہم ایٹم بم نہیں بنا رہے۔‘ خامنہ ای کے سپریم لیڈر بننے کے بعد مختلف ایٹمی سیاست دان ایران چھوڑ کر چلے گئے۔ امریکہ نے ان ممالک پر بھی دباؤ ڈالا جو ایران کے نیوکلیئر پروگرام میں اس کی مدد کرتے تھے۔
تاہم اس دوران کئی ممالک کی ایٹم بم بنانے کی باتیں شروع ہوئیں، ایران نے ان ممالک سے مدد حاصل کرنے کی کوشش شروع کی جو امریکہ کے دباؤ میں نہیں آتے تھے۔ 1987 کے اوائل میں ایران نے نامعلوم غیر ملکی اداروں سے نیوکلیئر منصوبے اور سینٹری فیوجز حاصل کیے اور کولمبیا یونیورسٹی کے تحقیقی مقالے کے مطابق یہ الزام پاکستانی ایٹمی سیاست دان عبدالقدیر خان پر لگایا جا رہا تھا۔
1992 میں ایران نے شمالی کوریا سے میزائل لینے شروع کیے اور اس کے بدلے شمالی کوریا کے میزائل پروگرام کے لیے رقم فراہم کیا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ایران نے ’پروجیکٹ عماد‘ کے نام سے 90 کی دہائی کے اواخر میں جوہری ہتھیاروں کے گریڈ کے ایٹمی مواد تیار کیے اور انہیں ٹیسٹ بھی کیا۔ پروجیکٹ عماد بارے تفصیلات تب سامنے آئیں جب اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد نے ایران کے ایک نیوکلیئر پلانٹ سے دستاویزات حاصل کیں۔ تاہم اس وقت ایران نے ان تمام دعوؤں کی تردید کی اور اس کو اسرائیل کا پروپیگنڈا قرار دیا۔
کیا اسرائیل پر میزائیل حملوں کے بعد ایران امریکہ پر حملے کرے گا ؟
تاہم آج وہی امریکہ ایران کے نیوکلیئر پروگرام کو تباہ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے جس نے ایران کا نیوکلیئر پروگرام شروع کروایا تھا۔ اس مقصد کے لیے امریکہ اپنے اتحادی ایران کو استعمال کر رہا ہے جس نے حالیہ حملوں میں ایرانی نیوکلیئر پاور پلانٹ تباہ کرنے کا دعوی کیا ہے۔ اسرائیلی حملوں سے پہلے امریکی انٹیلیجنس کا یہ کہنا تھا کہ اس وقت ایران کے پاس 182 کلوگرام، 60 فیصد تک افزودہ یورینیم، 840 کلو گرام 20 فیصد تک افزودہ اور دو ہزار 595 کلو گرام ایسا یورینیم موجود ہے جو پانچ فیصد تک افزود ہے۔ امریکہ کے مطابق 60 فیصد سے اوپر افزودہ یورینیم کو جوہری بم بنانے کے مقصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جبکہ عام فائدے کے لیے یورینیم کو تین فیصد سے زائد افزود کی ضرورت نہیں ہوتی۔ آرمز کنٹرول نامی ادارے کے مطابق ایران کے پاس موجود یورینیم سے دو ہفتوں میں پانچ سے چھ ایٹم بم بنائے جا سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ ابھی تک ایران نے جوہری بم بنانے کا باقاعدہ کوئی اعلان نہیں کیا۔