شہباز حکومت کو فارغ ہونے کے بعد کن زیادتیوں کا حساب دینا ہے ؟

سینیئر صحافی اور اینکر پرسن حامد میر نے موجودہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کے نتیجے میں گرفتاریوں اور مشکلات کا سامنا کرنے والے صحافیوں کو باضمیر قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ وقت بھی گزر ہی جائے گا اور موجودہ سیٹ اپ بھی کل کو ماضی کا قصہ بن جائے گا، لہٰذا آج کے حکمرانوں کو یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ کل کو انہیں بھی اپوزیشن میں بیٹھنا ہو گا اور اپنے کئے کا حساب دینا ہو گا۔

روزنامہ جنگ کے لیے اپنی تازہ تحریر میں حامد میر کہتے ہیں کہ صحافیوں کی ایک قسم ایسی بھی ہے جو مخصوص سیاسی جماعتوں کا آلہ کار بننے پر یقین رکھتی ہے۔ جب بھی ان کی محبوب سیاسی جماعت یا محبوب لیڈر حکومت میں آتا ہے تو ان کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں۔ لیکن جب ان کی ناپسندیدہ جماعت کی حکومت آتی ہے تو وہ جمہوریت اور آزادی صحافت کے مجاہد بن جاتے ہیں۔ تاہم کچھ صحافی ایسے ہوتے ہیں کہ جو ہر حکومت کی نظروں میں کھٹکتے ہیں کیونکہ وہ صحافت کو سیڑھی بنا کر کوئی فائدہ حاصل نہیں کرتے۔ ایسے صحافیوں کے لئے پاکستان میں صحافت کرنا بہت مشکل ہو چکا ہے۔ ایک طرف تو ایف آئی اے، پولیس اور دیگر ریاستی اداروں کا دباؤ اور دوسری طرف سوشل میڈیا پر صحافیوں کو ڈرانے دھمکانے کیلئے کرائے کے غنڈے دستیاب ہیں۔

انکا کہنا ہے کہ یہ کرائے کے غنڈے حب الوطنی کے نام پر حکومت کے ناقدین کو ملک دشمن قرار دیتے ہیں۔ شرم و حیا اور غیرت سے ’’آزاد‘‘ کرائے کے ان سرکاری غنڈوں کا کام صرف یہ ہے کہ چند ہزار روپوں کی خاطر پاکستان کے آئین و قانون کی بالادستی کا مطالبہ کرنے والوں کو غداروں کی فہرست میں شامل کرتے جاؤ۔ ان غنڈوں کی اصل طاقت ان کی قابلیت نہیں بلکہ طاقت کے مراکز سے قربت ان کی اصل طاقت ہوتی ہے۔ ان مراکز میں تبدیلیوں سے ان غنڈوں کی طاقت بھی کم اور زیادہ ہوتی رہتی ہے۔ حکومت پر تنقید کرنے والے صحافی ان کرائے کے غنڈوں کا خاص ٹارگٹ ہوتے ہیں کیونکہ ناقدین کے خلاف گالی گلوچ سے ہی ان کا دھندہ چلتا ہے۔

حامد میر کے بقول ہر حکومت پر بلاجواز تنقید ہی تعمیری صحافت نہیں ہے۔ حکومتی غلطیوں کی نشاندہی اور اسکے اچھے کاموں کی تعریف اصل صحافت ہے، لیکن مصیبت یہ ہے کہ اکثر سیاستدان جب اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو وہ حکومتوں پر تنقید کرنے والے صحافیوں پر صدقے واری جاتے ہیں۔ لیکن جب یہی سیاستدان حکومت میں آتے ہیں تو تنقید کرنے والے صحافی انہیں ملک دشمن نظر آنے لگتے ہیں۔ کل کی بات ہے ایک وزیر صاحب پوچھ رہے تھے کہ کیا آپ نے ہر حکومت پر تنقید اور ہر حکومت کے تنخواہ دار صحافیوں سے گالیاں سننے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے؟ ہم نے ان سے بڑی عاجزی کے ساتھ پوچھا کہ کیا یہ درست ہے کہ جب عمران خان کی حکومت نے پیکا کا قانون ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے نافذ کیا تو آپ نے اس کی مخالفت کی تھی؟ وزیر صاحب نے اثبات میں سر ہلایا اور کہا کہ جی بالکل ہماری پوری پارٹی پیکا آرڈیننس کے خلاف تھی۔ میں نے پوچھا کہ جب ہم نے پیکا آرڈیننس کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تو آپ کی پارٹی بھی ہمارے ساتھ فریق بن گئی ؟ انہوں نے دوبارہ اثبات میں سر ہلایا۔ میں نے پوچھا کہ اب آپکی حکومت ہے آپ اسی پیکا قانون کو مزید خوفناک بنا کر بغیر بحث کے قومی اسمبلی سے منظور کروا لیں تو ہم کیسے آپ کی تائید کریں’ جو کام عمران خان کے دور میں غلط تھا وہ آپ کے دور میں ٹھیک کیسے ہو گیا؟

حامد میر بتاتے ہیں کہ حسین نقی پاکستان کے ان چند صحافیوں میں سے ایک ہیں جن کی ذوالفقار علی بھٹو اور شیخ مجیب الرحمان سمیت اس زمانے کے کئی اہم سیاستدانوں سے دوستی تھی۔ نقی صاحب 1971ء کے فوجی آپریشن سے قبل ڈھاکہ میں بھٹو اور مجیب کے مذاکرات کے عینی شاہد ہیں۔ انہوں نے دونوں کو آپس میں مفاہمت کا مشورہ دیا۔ مفاہمت نہ ہو سکی اور فوجی آپریشن ہوگیا۔ پاکستان ٹوٹ گیا۔ حسین نقی نے اپنے ویکلی رسالے میں بھٹو حکومت پر تنقید شروع کردی۔ حکومت نے 1972ء میں اس رسالے پر پابندی لگا دی۔ ’’پنجاب پنچ‘‘ کے علاوہ اردو ڈائجسٹ اور ہفت روزہ زندگی بھی بند کر دیئے گئے۔ اس کے بعد حسین نقی گرفتار ہو گئے۔  جب بھٹو حکومت کا تختہ الٹ کر جنرل ضیاء الحق نے اقتدار سنبھالا تو حسین نقی کے لئے آمر کا درباری بننا بڑا آسان تھا، لیکن انہوں نے اپنے ضمیر کی آواز پر آئین شکن ضیا جنتا پر تنقید کی تو گرفتار کرکے شاہی قلعہ لاہور کے عقوبت خانے میں قید کر دیئے گئے۔

حکومت کی دوغلی پالیسیاں، پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ

لیکن حامد میر سوال کرتے ہیں کہ کہاں گیا وہ جنرل ضیاء الحق؟ فوجی ڈکٹیٹرز اور حکومتیں آتی ہیں اور چلی جاتی ہیں۔ ہر حکومت کے ساتھ ہی اس کا خوشامدی ٹولہ اور کرائے کے صحافی بھی ماضی کا قصہ بن جاتے ہیں لیکن حسین نقی جیسے صحافیوں کی جرأت انکار قائم رہتی ہے۔ شہباز شریف آج وزیر اعظم ہیں، انکی حکومت کبھی اسد طور، کبھی مطیع اللہ جان اور کبھی فرحان ملک کو گرفتار کرتی ہے۔ لیکن کل کو یہ حکومت ماضی کا قصہ بن جائے گی۔ شہباز شریف اپوزیشن میں ہوں گے اور انہی صحافیوں کی جرأت انکار کو خراج تحسین پیش کرتے نظر آئیں گے۔

Back to top button