نجی کالج زیادتی کیس میں بظاہر کوئی صداقت نہیں : انسانی حقوق کمیشن
پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) کےفیکٹ فائنڈنگ مشن کا کہنا ہے کہ انہیں لاہور کے ایک نجی کالج میں ایک طالبہ کے ساتھ مبینہ زیادتی سےمتعلق قابل بھروسہ اور واضح ثبوت نہیں مل سکے ہیں۔
ایچ آر سی پی کےمطابق کچھ فریقین نے طلبہ کے بیانیے کو اپنےمفاد میں استعمال کرنے کی کوشش کی،پولیس اور کالج انتظامیہ پر شدید بداعتمادی ن حالات کو اور زيادہ خراب کیا۔
انسانی حقوق کمیشن کی رپورٹ میں کہاگیا ہےکہ فارینسک شواہد اور قابل بھروسہ شہادتوں کی عدم موجودگی میں یہ حتمی نتیجہ اخذ نہیں کیا جاسکتا کہ اکتوبر 2024 کے اوائل میں لاہور کے ایک نجی کالج میں ایک طالبہ سے زیادتی کے الزامات حقیقت پر مبنی تھے۔
کمیشن کی جانب سےجاری کردہ بیان میں کہاگیا ہےکہ اس حوالے سےپیش آنےوالے واقعات نے کالج کے طلبہ میں شکوک و شبہات اور عدم اعتماد کو جنم دیا۔ ان واقعات میں سوشل میڈیا پر زیادتی کے غیر تصدیق شدہ دعوے،کالج انتظامیہ کا تا خیری اور غیر معقول رد عمل اور حکومتی نمائندوں کےمتضاد بیانات شامل ہیں۔
ایچ آر سی پی نے احتجاج کرنے والے طلبہ کےخلاف طاقت کے استعمال کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ طلبہ کے رد عمل سے ظاہر ہوتا ہےکہ وہ تعلیمی اداروں میں سکیورٹی کی صورت حال اور جنسی ہراسانی کےمسلسل واقعات اور متاثرین ہی کو مورد الزام ٹھہرانےکی روش سے بہت نالاں ہیں۔
انسانی حقوق کمیشن کے بیان میں کہاگیا ہےکہ آن لائن پلیٹ فارمز پر ہونےوالے شور سے معلوم ہوتا ہےکہ کچھ دیگر فریقین نے طلبہ کے بیانیےکو اپنے مفاد میں استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔
ایچ آر سی پی کی جانب سے پیش کی گئی تجاویز میں کہا گیا کہ نوجوانوں میں ڈیجیٹل خواندگی اور حقائق کا ادراک آسان بنانے کےلیے باقاعدگی کےساتھ مہم چلائی جائے۔
کمیشن نے تجویز پیش کی کہ تعلیمی اداروں میں ہراسانی اور جنسی تشدد کے الزامات کو ہمیشہ سنجیدہ لیاجائے اور تمام تعلیمی اداروں میں انسداد ہراسانی کمیٹیاں تشکیل دی جائیں۔
فیض حمید کا ٹرائل مارچ تک مکمل ہوجائےگا، جاوید چوہدری کا دعویٰ
یادرہے کہ گذشتہ ماہ لاہور کے ایک نجی کالج کی طالبہ سے مبینہ زیادتی کی خبر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی جس میں دعویٰ کیاگیا تھاکہ نجی کالج کی ایک طالبہ کو اسی کالج کے ایک سکیورٹی گارڈ نے مبینہ طور پر زیادتی کا نشانہ بنایا ہے۔
نجی کالج میں طالبہ سے مبینہ زیادتی خبر سامنے آنے کے بعد کالج کی انتظامیہ، پنجاب کی صوبائی حکومت، پنجاب پولیس اور ایف آئی اے سمیت دیگر تحقیقاتی ادارے ایسےکسی بھی مبینہ واقعے کے رونما ہونےکی تردید کرچکے ہیں لیکن اس کے باوجود نا صرف لاہور بلکہ راولپنڈی اور گوجرانوالہ سمیت متعدد شہروں میں طلبا نے سڑکوں پر نکل کر احتجاج کیاجس کےدوران ان کی پولیس کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں اور متعدد طلبہ کو گرفتار کیاگیا تھا۔