بھاگ کر نہیں جائیں گے،مستعفی ہونےسےمتعلق سوال پرجسٹس منصور شاہ کاجواب
بطور جج سپریم کورٹ مستعفی ہونے سے متعلق سوال پرجسٹس منصور علی شاہ نے صحافی کوجواب کہ بھاگ کرنہیں جائیں گے۔
اسلام آباد میں میڈیا سےغیررسمی گفتگو کے دوران صحافی نےجسٹس منصور علی شاہ سے سوال کیا کیا آپ کے مستعفی ہونےسےمتعلق افواہیں درست ہیں؟
جسٹس منصورعلی شاہ نے صحافی کو جواب دیتے ہوئے کہا یہ سب قیاس آرائیاں ہیں، بھاگ کر نہیں جائیں گے،جو کام کرسکتا ہوں، اسےجاری رکھوں گا۔
سینئر جج سپریم کورٹ کا کہنا تھا ابھی ایک کانفرنس پر آیا اس کےبعد دوسری پر جا رہا ہوں، نظام کوجتنا بہتر کرنے کا اختیار ہاتھ میں ہے وہ کریں گے۔
قبل ازیں سپریم کورٹ کےسینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ کی جانب سے ایک تقریب میں خطاب کےدوران باربارآئینی بینچ میں شامل نہ ہونےکا تذکرہ کیا گیا۔
جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا بچوں کے حقوق کاعدلیہ کواحساس ہے، بچے نہ صرف ہمارا مستقبل ہیں بلکہ ہماراحال بھی ہیں، بچےکل کےلوگ نہیں آج کے افراد ہیں۔
جسٹس منصورعلی شاہ کا کہنا تھا ججز کو بتانا چاہتا ہوں کہ بچوں کے لیے انصاف کس قدر اہم ہے، عدالت میں بچہ پیش ہوتا ہے تو ان کو بات کا موقع نہیں دیا جاتا، ہم کیسز میں بچوں کےوالدین کو سن لیتے ہیں،آئندہ بچہ عدالت میں پیش ہو تو بچےکی بات کو سنیں، مفاد عامہ کے مقدمات سےکافی بہتری آتی ہے، میں ہمیشہ کہتا ہوں عدالت آئیں، میں آئینی بنچ میں نہیں مگرمیرے ساتھی آپ کو سنیں گے،
سپریم کورٹ کےجج نےکہا کہ بچوں کو بھی فیصلہ سازی کےعمل میں شامل کرنا چاہیے، عدلیہ کو بچوں کے حقوق کا تحفظ کرناچاہیے، ملک میں چلڈرن کورٹس بنانےکی ضرورت ہےجہاں بچوں سے متعلقہ کیسز کے جلد فیصلے ہوں، دیکھنا ہے ہمارا نظام انصاف بچوں کیلئےکیا کر رہا ہے، بچوں کو بھی آزادی رائےکا حق ہے، بچے ہمارےلیےہم سے زیادہ اہم ہونےچاہئیں، ایسا نہیں ہونا چاہیےبچہ عدالت آکر سارا دن بیٹھارہے، بچے سے متعلق کیس کوفوری سنا جانا چاہیے۔
جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا بچوں کوآج "سائبر بولائنگ” جیسے خطرات کا سامنا ہے،ملک میں ڈھائی کروڑ سےزیادہ بچےاسکول نہیں جارہے، اسپیشل چائلڈ سے متعلق ہمارےپاس سہولیات موجود نہیں، بچیوں کوونی کرنےجیسی رسومات آج تک موجود ہیں،اسکول میں بچوں کومارنےپیٹنے کا رجحان آج بھی باقی ہے، جبری مذہب کی تبدیلی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے خطاب کےدوران آئینی بینچ میں نہ ہونےکا بار بار تذکرہ کرتے ہوئےہال میں موجود جسٹس جمال مندوخیل کو مخاطب کر دیا۔
سپریم کورٹ کےجج نے کہاکہ بچوں سے متعلق آئین کےآرٹیکل 11 تین کی تشریح کی ضرورت ہے، میں اب یہ تشریح کر نہیں سکتا لیکن آپ(جسٹس جمال مندوخیل)کرسکتے ہیں، معذرت چاہتا ہوں، مجھے یہ بار بار کہنا پڑ رہا ہے، مگر اب کیا کروں میں یہ تشریح کر نہیں سکتا۔