278 لاشیں گرنے کا دعوی کرنے والے بالآخر 12 لاشیں گنوانے لگے

معروف لکھاری اور تجزیہ کار عمار مسعود نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا نیٹ ورک اب کسی سیاسی جماعت کا سوشل میڈیا نہیں رہا، اب یہ ان گِدھوں کا غول بن چکا ہے جسے ہر وقت نوچنے کے لیے لاشیں درکار ہیں، جتنا جھوٹ 26 نومبر کے اسلام آباد احتجاج کے حوالے سے بولا گیا اس نے جھوٹ کی نئی تاریخ رقم کی۔ اب حقیقت سامنے آنے پر سمجھیے کہ ڈی چوک پر پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا کی لاش عریاں پڑی ہے جس کو کوئی کفنانے دفنانے کو تیار نہیں۔

اپنی تازہ تحریر میں عمار مسعود کہتے ہیں کہ 26 نومبر کو جو کچھ ہوا اس کی روداد ہر سوشل میڈیا کے اکاؤنٹ پر مختلف ہے۔ ابتلا کا ایسا وقت پڑا کہ سچ جاننے کا کسی کو ہوش نہیں۔ جھوٹ کے بازار میں اتنی تندی آئی کہ سچ کہیں ڈوب گیا۔ نفرت کچھ ایسی شدت سے پھیلائی گئی کہ سچ تک رسائی ختم ہو گئی۔ لوگ جھوٹ کی دلدل میں دھنستے گئے اور بات کہاں سے کہاں تک جا پہنچی۔ تاہم 278 لاشوں کا دعوی کرنے والی پی ٹی ائی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر خان اب خود یہ دعوی کر دیا ہے کہ مرنے والوں کی تعداد 12 ہے۔ دوسری جانب ہسپتالوں نے جو لاشیں گنوائی ہیں ان کی تعداد صرف پانچ ہے جبکہ سیکیورٹی فورسز کے بھی پانچ ہی جوان شہید ہوئے۔

عمار مسعود کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا نیٹ ورک چلانے والوں کو اپنے کپتان کی طرح خوشی کی ہر خبر، ترقی کا ہر منظر اور امن کی ہر صورت زہر لگتی ہے۔ یہ نفرت فروخت کرتے ہیں، اور بہت ارزاں فروخت کرتے ہیں۔ ان کو لائکس اور ری ٹوئیٹس کی جنگ میں ابتری، تنزل، بے امنی اور بدحالی درکار ہے۔ یہ تماشا گر ملک کا تماشا بناتے ہیں، ساری دنیا سے ملک کے لیے تذلیل کے تمغے لاتے ہیں اور اپنے ہی ملک کی تضحیک کا جشن مناتے ہیں۔ کتنے بدنصیب ہیں یہ یوتھیے جو مادرِ وطن کا سودا کرتے ہیں، کتنے قابل نفرت ہیں یہ عمرانڈوز جو پاکستان بدنام کر کے ڈالرز کماتے ہیں اور کتنے سنگ دل ہیں وہ تمام لوگ جو نفرت کے اس کاروبار میں ملوث ہیں۔

عمار مسعود کہتے ہیں کہ اسلام آباد میں 278 لاشیں گرانے کا جھوٹا الزام سوشل میڈیا پر پھیلا کر یوتھیوں نے وطن کی مٹی سے غداری کی ہے۔ اس طرح کے فیک اعداد و شمار صریحاً ملک دشمنی ہے۔ انکا کہنا ہے کہ وطن فروش پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا جلتی پر پیٹرول چھڑکتا ہے اور پھر اس کا تماشا دیکھتا ہے۔ اس کام کے بدلے دنیا انہیں ڈالروں میں تولتی ہے۔ جھوٹ کی بہتات ان کا اثاثہ ہے اور وطن فروشی ان کا کاروبار ہے۔ 26 نومبر کے حوالے سے سوشل میڈیا پر کیا کیا موشگافیاں ہوئیں، کسی نے مارے جانے والے افراد کی تعداد کو درجنوں میں بتایا، کسی نے اس تعداد کو سینکڑوں میں دکھایا، کسی نے بات ہزاروں تک پہنچا دی۔ سچ لکھنے والے سچ بتاتے رہے۔ حکومت اپنی دلیلیں دیتی رہی، ہسپتال والے بتاتے رہے مگر جن کا کاروبار ہی جھوٹ ہو وہ سچ پر کیسے یقین کرتے۔ یہ بھی ہوا کہ کسی نے آرٹیفیشل انٹیلیجنس سے کوئی تصویر بنائی اور بتایا کی ڈی چوک میں خون کے دریا بہہ گئے۔ کسی نے فلسطینیوں کی نعشوں پر ڈی چوک لکھ کر ڈالر کمائے، کسی نے خود پر خون گرا کر مردہ ہونے کے ڈرامے کیے اور ڈالر کمائے۔

عمار مسعود کہتے ہیں کہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جس نے لاشوں کی تعداد کو حقیقت سے قریب رکھا، اس کے ویوز کم آئے، جس نے لاشوں کی تعداد کو بڑھا چڑھا کر رپورٹ کیا، وہ ڈالروں کی ریس میں آگے رہا۔ یہاں تک ہوا کہ کچھ لوگوں نے مرنے والوں کی تعداد میں اس قدر مبالغہ برتا کہ جتنے افراد فائنل کال میں بھی موجود نہیں تھے، اس سے زیادہ لاشیں گرا دیں۔ لیکن اس سنگین کھیل میں جاں بحق صرف سچائی ہوئی۔ اب یہ طے ہو چکا ہے کہ اس طرح کے جھوٹے دروغ گو سوشل میڈیا کے ساتھ پاکستان نہیں چل سکتا۔ روز روز کی بےامنی کے ساتھ پاکستان ترقی نہیں کر سکتا۔ احتجاج اور جلاؤ گھیراؤ سے ملک میں امن نہیں ہو سکتا۔ اب فیصلہ کُن مرحلہ آ چکا ہے۔

عمار کا کہنا یے کہ اب ایک اٹل فیصلہ درکار ہے۔ اب ایک حتمی اعلان کا انتظار ہے۔ جس میں سوشل میڈیا پر جھوٹ بولنے والے کی پکڑ ہو گی۔ جس میں نفرت پھیلانے والوں کی باز پرس ہو گی۔ جس میں فیک نیوز پر سزا ہو گی۔ جس میں انتشار کی تادیب ہو گی۔

اب قانوں بننا چاہیے۔ ان خود رو زہریلے پودوں کو تلف کرنا چاہیے۔ اب قوانین پر عمل ہونا چاہیے۔ ملک کو ان انتشارویوں سے محفوظ کرنا چاہیے۔ ملک کے خلا ف پروپیگنڈا کرنے والوں کے لیے ٹاسک فورس بنانے کا اعلان تو ہوگیا مگر اس ٹاسک فورس کو فعال بھی ہونا چاہیے۔ اس ٹاسک فورس کے ذریعے ایسی عدالتوں کا قیام عمل میں آنا چاہیے جو سوشل میڈیا پر جھوٹ بولنے والوں کی پکڑ کر سکیں۔ لوگوں کا فوری طور پر احتساب ہونا چاہیے۔ جرمانے ہونے چاہییں۔ سوشل میڈیا ہینڈل بند ہونے چاہییں۔

عمار مسعود کہتے ہیں کہ لوگوں کو گرفتار کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس سماج میں اس طرح لوگ ہیرو بن جاتے ہیں۔ آزادی اظہار کے نام نہاد علمبرادر بن جاتے ہیں۔ ان کے سوشل میڈیا ہینڈل اور ترقی کرتے ہیں، انہیں مزید ڈالر ملتے ہیں۔ معاشرے میں ان کے رتبے میں اضافہ ہوتا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ سچ کی آواز کو روکا جا رہا ہے۔ حق کی آواز کو دبایا جا رہا ہے۔ جمہوریت قتل ہو رہی ہے۔ اس لیے ان کو گرفتار کرکے مدارج میں اضافے سے گریز کرنا چاہیے۔پاکستانی عجیب لوگ ہیں۔ دنیا کے کسی ملک کے لوگ اپنے ملک کی برائی میں وہ لذت محسوس نہیں کرتے جو پاکستانی کرتے ہیں۔ انہیں اس سماج میں برائیاں ہی برائیاں نظر آتی ہیں۔ اور جو ملک سے باہر چلے گئے وہ تو ملک پر تنقید اور ہر بات ہتک آمیز طریقے سے ڈسکس کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ مانا اس میں بہت مشکلات ہیں۔ لیکن کیا دنیا کے باقی ممالک میں سب کچھ اچھا ہے۔ کیا بھارت میں مسائل نہیں ہیں؟ کیا بنگلہ دیش میں غربت نہیں ہے؟ کیا امریکا میں بے روزگاری نہیں ہے؟ کیا برطانیہ میں پولیس کے مظالم نہیں ہیں؟ سب جگہ مسائل ہیں، لیکن ان ممالک کے لوگ اپنے وطن کوگالی نہیں دیتے۔ اپنے وطن کے حوالے سے ہر وقت بدگمان نہیں رہتے۔ اپنی نفرت کا اظہار ملک سے نہیں کرتے۔

پی ٹی آئی لاشوں پر جھوٹ پھیلاکر ریاست کو بدنام کررہی ہے : عطا اللہ تارڑ

عمار کہتے ہیں کہ یہ نفرت کی آگ پی ٹی آئی نے لگائی، جس میں پاسپورٹ جلانے کی روایت ڈالی گئی، جس میں پرچم کو پیروں تلے روندنے کا چلن شروع کیا گیا۔ جس میں وطن کو گالی دے کر ڈالر کمانے کا فن سکھایا گیا۔ یہ قابل نفرین رسومات پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا کی سوغاتیں ہیں اور ان پر قابو پائے بغیر ملک ترقی نہیں کرسکتا۔

Back to top button