ٹرین حملے کے بعد میڈیا پر سنسر شپ لگانے کا فائدہ ہوا یا نقصان؟

بلوچستان لبریشن آرمی کی جانب سے جعفر ایکسپریس پر حملے کے 24 گھنٹے بعد تک حکومت یا فوج کی جانب سے کوئی واضح اطلاع نہ آنے کی وجہ سے سوشل میڈیا پر ڈس انفارمیشن کا بازار گرم رہا جس میں بھارتی میڈیا نے بھی اپنا حصہ ڈالا۔ ایسے میں یہ سوال اُٹھتا ہے کہ بلوچستان میں اتنا بڑا واقعہ ہو جانے کے بعد بھی سرکاری حکام اتنی دیر تک کوئی انفارمیشن دینے سے گریزاں کیوں رہے اور کیا اس کا فائدہ ہوا یا نقصان؟
بی بی سی اردو کی ایک رپورٹ کے مطابق ڈی جی آئی ایس پی آر احمد شریف چوہدری نے حملے کے 24 گھنٹے کے بعد ایک ٹی وی چینل پر جو تفصیلات دیں وہ بھی بازیاب ہونے والے مسافروں کے بیانیے سے متصادم ہیں۔ یاد رہے کہ کوئٹہ سے پشاور جانے والی جعفر ایکسپریس کو بلوچستان لبریشن آرمی کے جنگجوؤں نے پہلے فائرنگ کر کے روکا اور پھر تقریباً 400 مسافروں کو یرغمال بنا لیا۔ اس ٹرین کو درہ بولان کے پاس روکا گیا تھا اور اس میں چھٹی پر اپنے گھروں کو جانے والے بڑی تعداد میں سکیورٹی اہلکار سوار تھے۔
ٹرین پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد سے ہی ٹی وی سکرینوں پر ’سکیورٹی ذرائع‘ کا حوالہ دے کر خبریں چلائی جاتی ہیں کہ ’اتنے مسافروں کو دہشت گردوں سے بازیاب کروا لیا گیا‘ یا ’اب تک اتنے دہشتگرد مارے جا چکے ہیں۔‘ لیکن ’سکیورٹی ذرائع‘ سے منسوب ٹی وی سکرینوں پر چلنے والی خبریں تمام ٹی وی چینلز اور نیوز ویب سائٹس پر ایک جیسی ہی نظر آتی تھیں۔ ایسا نہیں تھا کہ ٹرین کی ہائی جیکنگ پر حکومتی شخصیات مکمل خاموش ہیں لیکن ان کی جانب سے سامنے آنے والے مذمتی بیانات یا عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کے وعدے کسی بھی مستند معلومات سے عاری تھے۔ دوسری جانب ٹرین کو ہائی جیک کرنے والی بی ایل اے کی جانب سے تواتر سے صحافیوں کو دعوؤں سے بھرپور بیانات بھیجے جاتے رہے اور سوشل میڈیا پر بھی معلومات شیئر کی جاتی رہیں۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق سوشل میڈیا پر ٹرین ہائی جیکنگ کے حوالے سے گمراہ کُن خبریں بھی گردش کرتی رہیں اور انڈین میڈیا بھی دہشت گردوں کی واردات کو مزے لے کر بیان کرتا رہا۔ اس بات کا اقرار ’سکیورٹی ذرائع‘ بھی کرتے ہوئے نظر آئے کہ ’بزدلانہ حملے کے بعد ہندوستانی میڈیا، ہندوستانی سوشل میڈیا اور ملک دشمن سوشل میڈیا اکاؤنٹس ملکر مسلسل گمراہ کُن، جھوٹا اور فیک پروپیگنڈا کرنے میں مصروف رہے۔
اس حوالے سے حتمی معلومات لیکن تب ہی سامنے آئیں جب فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز پر آئے اور بتایا کہ فوجی آپریشن میں 33 دہشت گرد ہلاک کردیے گئے ہیں جبکہ آپریشن شروع ہونے سے قبل دہشت گردوں نے 21 یرغمالیوں کو قتل کر دیا تھا۔ تاہم بی ایل اے نے ان 21 افراد کو فوجی جوان قرار دیا اور دعوی کیا کہ کسی ایک بھی سویلین کی جان نہیں لی گئی۔ دوسری جانب فوجی ترجمان نے بتایا کہ اس واقعے میں صرف چار ہی ایف سی اہلکار شہید ہوئے۔
جب بی بی سی نے وزیرِ مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری سے سرکاری حکام کی خاموشی بارے پوچھا تو انھوں نے کہا کہ ’حتمی تفصیلات یا معلومات آپریشن مکمل ہونے کے بعد ہی دی جا سکتی ہیں۔ ایسی تمام باتیں فیکٹس اینڈ فیگرز کے ساتھ کی جاتی ہیں اور جیسے ہی آپریشن مکمل ہوا، تمام صورت حال بارے لوگوں کو آگاہ کریں دیا گیا۔ اسی دوران وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے حملے کی مذمت کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ ایک جانب سوشل میڈیا پر جعفر ایکسپریس حملے کے حوالے سے بھارتی میڈیا اور سوشل میڈیا منفی پروپگینڈا کر رہا تھا تو دوسری جانب تحریک انصاف کے یوتھیے بھی دہشتگردوں کی حمایت میں مہم چلا رہے تھے۔
جعفر ایکسپریس پر حملہ ہونے کے تقریباً 24 گھنٹے بعد بلوچستان کے وزیرِ اعلیٰ سرفراز بُگٹی نے صوبائی اسمبلی میں ایک تقریر کے دوران اپنی خاموش توڑی۔ سرفراز بگٹی نے کہا کہ ’جو بھی تشدد کرے گا، جو ریاست توڑنے کی بات کرے گا، بندوق اٹھائے گا، ریاست مکمل طور پر قلع قمع کرے گی۔‘ انھوں نے کہا کہ ’اب بھی ریاست صبر سے کام لے رہی ہے، جو میرے خیال میں نہیں لینا چاہیے۔‘ بگٹی نے کہا کہ ’عجیب بات ہے کہ وہ ہمارے پانچ سو لوگ ماریں اور ہم جا کر معافی مانگیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ہمیں اس لڑائی کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ بی ایل اے بندوق کے زور پر اپنا نظریہ مسلط کرنا چاہتی ہے، کیا ہم اس کی اجازت دے دیں، وہ بچوں کو ماریں، کیا اس کی اجازت دے دی؟‘
ٹرین پر حملہ کرنے والوں کا اصل ٹارگٹ چھٹی پر جانے والے فوجی تھے
سینیئر تجزیہ کار اور ماضی میں حکومت کا حصہ رہنے والے صحافی فہد حسین نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ’مجھے تو کوئی تُک نظر نہیں آتی حکومت کی خاموشی کی، ایسے وقت میں تو حکومت کو درست، تصدیق شدہ اور مستند معلومات لوگوں تک پہنچانی چاہیے۔ ایسے مواقع پر معلومات نہ دینے سے خلا پیدا ہوتا ہے جس کے سبب فیک نیوز اور پروپیگنڈا پھیلتا ہے۔ سینیئر صحافی و تجزیہ کار ابصار عالم کا بھی یہی خیال تھا کہ ایسے واقعے پر سینسر شپ لگانا مناسب نہیں، بھلے وہ کسی بھی مقصد سے لگائی جائے کیونکہ اسکے منفی اثرات سامنے آئے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے مین سٹریم میڈیا کو کنٹرول کرنے کی وجہ سے غلط پروپیگنڈا پھیلا جس میں انڈین میڈیا بھی شامل ہو گیا اور حکومت مخالف تحریک انصاف نے بھی اسکا فائدہ اُٹھایا۔