کیا اسلام آباد احتجاج کی کال فیض حمید کو بچانے کے لیے دی گئی؟

باخبر عسکری ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ 24 نومبر کو عمران خان کی جانب سے اسلام اباد میں احتجاج کی کال کا بنیادی مقصد سابق آئی ایس آئی چیف جنرل فیض حمید کے کورٹ مارشل کی کارروائی پر اثر انداز ہونا اور فوجی قیادت پر دباؤ ڈالنا تھا۔ ذرائع کا دعوی ہے کہ عمران کی تیسری اہلیہ بشری بی بی کی اڈیالہ جیل سے ضمانت پر رہائی کے فورا بعد فیض حمید کی اہلیہ سے مدد طلب کرتے ہوئے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ ان کے شوہر کو اگلے چند ہفتوں میں کورٹ مارشل کی کارروائی مکمل کر کے سخت ترین سزا سنائی جانے والی ہے۔ چنانچہ بشری بی بی نے اپنے پیغام رسانوں کے ذریعے عمران خان کو 24 نومبر کو اسلام اباد میں احتجاج کے اعلان پر آمادہ کیا۔

یوں وہ کھیل شروع ہوا جس کا انجام 26 نومبر کی رات پی ٹی آئی قیادت کے ڈی چوک سے فرار ہونے کی صورت میں سامنے آیا جب بشری بی بی اور علی مین گنڈا پور اپنے ورکرز کو ڈی چوک میں چھوڑ گئے۔ یوں فوجی قیادت پر دباؤ ڈالنے کا منصوبہ ناکامی کا شکار ہو گیا اور اب فوجی ترجمان نے اس بات کی تصدیق کر دی ہے کہ فیض حمید پر فرد جرم عائد کر دی گئی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سابق آئی ایس آئی چیف کو اگلے چند ہفتوں میں کڑی ترین سزا سنائی جانے والی ہے کیونکہ اب ان پر 9 مئی 2023 کو فوجی تنصیبات پر حملوں کی منصوبہ بندی کا الزام بھی عائد کیا جا چکا ہے۔

یاد رہے کہ فیض حمید پر گرفتاری کے تقریباً 4 ماہ بعد باضابطہ طور پر فردِ جرم عائد کردی گئی ہے۔انہیں فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا سامنا ہے جبکہ ان پر لگائے جانے والی فردِ جرم میں سیاسی سرگرمیوں میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے الزام کی تحقیقات ہوں گی جبکہ انہیں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی، اختیارات کے ناجائز استعمال اور کسی شخص کو ناجائز طور پر نقصان پہنچانے کے لیے محتسب ٹھہرایا جائے گا۔

فوجی عدالتوں کو 9 مئی کے فیصلے سنانے کی اجازت، پی ٹی آئی کیلئے بڑا دھچکا

 

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وہ لوگ جو جنرل فیض حمید کی سرگرمیوں سے واقف ہیں وہ تصدیق کریں گے کہ موصوف نے اپنے دور اقتدار میں کھل کر اپنی پوزیشن کا استعمال کیا اور عمران خان کا ذاتی اور سیاسی ایجنٹ اگے بڑھانے کے لیے ان کے سیاسی مخالفین کیخلاف ہر ناجائز ہتھکنڈہ استعمال کیا۔ ڈی جی آئی ایس آئی کے طور پر انہوں نے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے اربوں روپوں کی جائیدادیں بنائیں۔ سال 2018 کے انتخابات میں دھاندلی کی ذمہ داری بھی انہی پر عائد کی جاتی ہے جسکے نتیجے میں عمران خان کو وزیراعظم بنوا دیا گیا تھا۔

فیض حمید کے آمرانہ دور میں عمران خان کے مخالف سیاست دانوں کو خوفزدہ کرنے اور میڈیا کو خاموش اور کنٹرول کرنے کی کوشش بھی کی گئی اور کئی سینیئر صحافیوں کو نہ صرف گولیاں ماری گئیں بلکہ انہیں گرفتار بھی کیا گیا۔ ایسا نہیں تھا کہ جب یہ ’جرائم‘ ہورہے تھے، تب فیض حمید کسی کی نظروں میں نہیں آئے تھے۔ مسئلہ یہ تھا کہ وہ طاقت میں تھے اور وزیراعظم عمران خان ان کے ساتھ تھے لہذا انہیں کسی کا ڈر خوف نہیں تھا۔ فیض حمید نے مرضی کے فیصلے لینے کے لیے نہ صرف ججوں کو دھمکیاں دیں بلکہ انہیں نوکریوں سے بھی نکلوایا۔ وہ یہ سب اس لیے کررہے تھے کیونکہ انہیں عمران کی حمایت حاصل تھی بلکہ انہیں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی سرپرستی بھی حاصل تھی۔

سیاسی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ فیض حمید نے بطور ڈی جی آئی ایس ائی کس طرح اختیارات کا ناجائز استعمال کیا، اس بارے میں سب جانتے تھے لیکن ادارہ جاتی احتساب تو چھوڑیے، ان کی جانچ تک نہیں کی گئی۔ ایسا اس لیے تھا کیونکہ اس وقت وہ جن مقاصد کے لیے کارفرما تھے وہ تب کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کی ترجیحات کے عین مطابق تھے جس نے عمران خان کو وزیراعظم بنا کر ایک ہائبرڈ سیاسی نظام تشکیل دیا تھا اور اقتدار میں حصے دار بن گئی تھی۔ وقت بدل گیا لیکن جنرل فیض حمید نہ بدلے جس پر ان کے اقدامات کی سنگین جانچ کرنے کی ضرورت پیش آئی۔

بظاہر فیض حمید کی غیر آئینی سرگرمیوں کی تحقیقات میں جو کچھ سامنے آیا وہ اتنا پریشان کن تھا کہ وہ کورٹ مارشل کا سامنا کرنے والے پہلے آئی ایس آئی چیف بن چکے ہیں۔ سیاسی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ یقینا یہ کیس فوج کا اندرونی معاملہ ہوتا اگر فیض سے صرف فوجی نظم و ضبط کی خلاف ورزیوں سے متعلق تفتیش کی جارہی ہوتی۔ تاہم ان پر لگائے گئے الزامات میں ان کی سیاست میں مداخلت کے علاوہ 9 مئی 2023 کو فوجی تنصیبات پر عمران کی رہائی کے لیے منظم حملوں کی سازش بھی شامل ہے جس نے معاملات کو پیچیدہ ترین بنا دیا۔

پاک فوج کے میڈیا ونگ کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں ملک میں ’انتشار اور بے امنی سے متعلق پُرتشدد واقعات میں فیض حمید کے ملوث ہونے سے متعلق تفتیش بھی جاری ہے جبکہ 9 مئی سے جڑے واقعات میں بھی شامل تفتیش ہیں‘۔ موصوف پر پُرتشدد واقعات میں مذموم سیاسی عناصر کی ایما شامل ہونے کا الزام ہے۔ لہازا خیال کیا جاتا ہے کہ جنرل فیض حمید اگلا آرمی چیف بننے پر اپنی توجہ مرکوز کیے ہوئے تھے۔
جنرل عاصم منیر کے آرمی چیف مقرر ہونے اور اپنی قبل از وقت ریٹائرمنٹ کے بعد بھی فیض حمید فوج میں بغاوت کی کوششوں میں ملوث تھے تو یہ معاملہ سامنے لایا جانا چاہیے۔ لہذا کورٹ مارشل کی کاروائی کے نتیجے میں ان کا بچنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہے۔

Back to top button