مولانا نے عمران سے ہاتھ ملانے کیلئے کون سی گارنٹیاں مانگ لیں؟

پی ٹی آئی کا حکومت مخالف گرینڈ اپوزیشن اتحاد بنانے کا خواب چکنا چور ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے پی ٹی آئی قیادت کے زبانی وعدوں پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے یوتھیے رہنماوں سے مختلف معاملات بارے تحریری گارنٹی مانگ لی ہے جبکہ تحریری مطالبات پورے نہ کئے جانے پر اپوزیشن اتحاد بارے معاملات آگے بڑھانے سے معذرت کر لی ہے۔ مبصرین کے مطابق عمران خان کی جیل یاترا کے بعد مسلسل ناکام ہوتی ہوئی سیاسی حکمت عملی کی وجہ سے پی ٹی آئی کی سیاست بند گلی میں داخل ہو چکی ہے۔ جہاں ایک طرف حکومت اور اسٹیبلشمنٹ پی ٹی آئی سے مذاکرات کرنے سے انکاری ہیں وہیں دوسری جانب پارٹی کی مسلسل احتجاجی پالیسی کی وجہ سے پی ٹی آئی ورکر بھی تھک چکے ہیں اور متعدد مواقع پر پارٹی قیادت کے اعلانات کے باوجود سڑکوں پر آنے سے گریزاں ہیں۔ مبصرین کے مطابق پی ٹی آئی قیادت نے یوتھیوں کی بے اعتنائی کے بعد سٹریٹ پاور دکھانے کیلئے اپنا ملجا و محور جے یو آئی کو بنا لیا ہے۔ تاہم مولانا نے پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے بارے اپنی پارٹی کے شدید رد عمل کو سامنے رکھتے ہوئے پی ٹی آئی قیادت سے مختلف امور بارے تحریری گارنٹیاں مانگ لی ہیں اور پی ٹی آئی لیڈر شپ پر واضح کر دیا ہے کہ تحریری یقین دہانی کروائے بغیر جےیو آئی کا تحریک انصاف سے ملکر آگے بڑھنا ناممکن ہے۔
دوسری جانب سینئر اینکر پرسن عادل شاہ زیب کا اس حوالے سے انڈیپینڈنٹ اردو کیلئے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں کہنا ہے کہ تحریک انصاف کا مسئلہ یہ ہے کہ مقبولیت کے عروج پر پہنچی، برسراقتدار رہی لیکن خود کو ایک سیاسی جماعت نہ بنا سکی۔ پوری پارٹی ایک ہی شخصیت یعنی عمران خان کے گرد گھومتی ہے، جس کی واضح مثال یہ ہے کہ جیسے ہی وہ جیل گئے، پارٹی میں سے جیسے جان ہی نکل گئی۔ تاش کے پتوں کی طرح بکھرنے والی قیادت ایک دوسرے کو پڑ گئی۔پی ٹی آئی کے بیس کیمپ خیبر پختونخوا میں کم از کم تین دھڑے بن چکے ہیں۔ پارٹی رہنماؤں کے مابین الزام تراشی جاری ہے مرکزی قیادت کی بات کریں تو باقی رہنما تو ایک طرف پارٹی سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجہ اور پی ٹی آئی چئیرمین بیرسٹر گوہر کھلے عام دست و گریباں ہیں۔سلمان اکرم راجہ نے تو سرعام بیرسٹر گوہر کی وفاداری پر ہی سوال اٹھا کر حد ہی کر دی۔ وجہ صرف یہ بنی کہ انہوں نے بیرسٹر گوہر کے ہمراہ عمران خان سے اس دن ملاقات کی، جس دن سلمان اکرم راجہ کو ملاقات کی اجازت نہیں ملی۔
عادل شاہ زیب کے بقول مرکزی قیادت کی اس غیر سنجیدگی اور پبلک میں ایک دوسرے کے خلاف بیانات نے ایک پاپولر جماعت کو ایسا اکھاڑہ بنا دیا ہے، جہاں کسی کی بھی عزت کسی بھی وقت تار تار ہو سکتی ہے۔ بیرسٹر علی ظفر نے سلمان اکرم راجہ سے بہت پہلے تحریک انصاف جوائن کی تھی، ان کو صرف ایک ہی ملاقات کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ کا اطاعت کنندہ بنا دیا گیا۔
عادل شاہ زیب کا مزید کہنا ہے کہ پی ٹی آئی رہنماؤں کے باہمی اختلافات اور گروپنگ کی وجہ سے پی ٹی آئی اس وقت کسی بڑی احتجاجی تحریک شروع کرنے کے قابل نہیں رہی اور یقینی طور پر اس کہ بڑی وجہ اندرونی اختلافات اور پھر ان کا آئے روز پبلک ہونا ہے۔ جس کی وجہ سے اب پی ٹی آئی کے ڈائی ہارڈ ورکرز بددل ہو کر مایوس ہو رہے ہیں، اسی لئے اب تحریک انصاف کا کارکن باہر نکلنے کے لیے بھی تیار نہیں۔
عادل شاہ زیب کے مطابق پی ٹی آئی کو درپیش موجودہ صورتحال کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پارٹی میں ہر رہنما عمران خان کے بعد خود کو ہی بڑا لیڈر سمجھتا ہے، اور ایک آدھ کے علاوہ ان میں سے کوئی نہیں چاہتا کہ عمران خان کی رہائی ہو، اس کی وجہ بڑی سادہ سی ہے کہ وہ نہیں چاہتے کہ ان کی دکانیں بند ہو جائیں۔
مبصرین کے مطابق پی ٹی آئی رہنماؤں میں باہمی اختلافات اور پارٹی کارکنوں کے بددل اورمایوس ہونے کے بعد یوتھیے رہنماؤں نے اپنی احتجاجی سیاست کو زندہ رکھنے کیلئے تمام امیدیں مولانا سے وابستہ کر لی ہیں تاہم عادل شاہ زیب کے مطابق جب مولانا سے اس حوالے سے استفسار کیا گیا کہ وہ تحریک انصاف کے ساتھ گرینڈ الائنس میں جا کر اس کی سربراہی کیوں قبول نہیں کرتے، جو کہ عمران خان نے آل ریڈی انھیں آفر کر رکھی ہے۔ اس سوال پر مولانا کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کے دس لوگ انھیں آ کر ملتے ہیں، ہر کوئی کہتا ہے خان سے مل کر آیا ہوں اور آپ کے لیے پیغام لایا ہوں، لیکن دس کے دس پیغامات مختلف ہوتے ہیں۔ تحاریک تو ایسی نہیں چلتیں، ہم کس کی بات پر یقین کریں کس کی بات رد کریں؟ ہم آنکھیں بند کر کے ایسے ہی میدان میں کیسے کود سکتے ہیں؟‘
عادل شاہ زیب کے مطابق مولانا فضل الرحمان پی ٹی آئی کےساتھ چلنےیا نا چلنے بارے حتمی فیصلہ 20 اپریل کے بعد کریں گے لیکن یہ بات ایک حقیقت ہے کہ جےیو آئی میں تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد پر شدید تحفظات پائے جاتے ہیں۔
عادل شاہ زیب کے بقول دونوں جماعتوں کے مابین اعتماد سازی کے فقدان کی وجہ سے جے یو آئی نے تحریک انصاف سے کچھ تحریری گارنٹیاں مانگ لی ہیں۔ ذرائع کے مطابق گرینڈ اپوزیشن الائنس میں پی ٹی آئی کا دست و بازو بننے پر عمران خان آئندہ انتخابات میں جے یو آئی کو خیبر پختونخوا میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ اور اپوزیشن کی سربراہی کی پیشکش کر چکے ہیں، لیکن مولانا اس پر ابھی تک نہیں مانے کیونکہ اس وقت جے یو آئی کو اندازہ ہے کہ اگر اڈیالہ جیل کی چابی تک راستہ کوئی پار کر سکتا ہے تو وہ ان کی جماعت ہے۔بالفاظ دیگر، جے یو آئی اس وقت تحریک انصاف کی مجبوری ہے، اور جب مولانا مجبوری بن جاتے ہیں تو سیاسی بارگیننگ میں وہ حاصل کر لیتے ہیں، جس کا احساس بہت سے لیڈران کو بعد میں ہوتا ہے۔