بلاول بھٹو نے 27 ویں ترمیم کی پٹاری کھول کر کیا حاصل کیا ہے ؟

معروف لکھاری اور تجزیہ کا روف کلاسرا نے کہا ہے کہ بلاول بھٹو کی جانب سے مجوزہ 27 ویں آئینی ترمیم کے اہم ترین نکات کو ایک ٹویٹ کے ذریعے عوام کے سامنے رکھنے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ پیپلزپارٹی اکیلے اتنی ترامیم کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی تھی لہٰذا دبائو کا رخ کسی اور طرف کرنا ضروری تھا۔ انکے مطابق اب تک کے رد عمل سے لگتا ہے کہ بلاول اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔
رووف کلاسرا اپنے تجزیے میں کہتے ہیں کہ ہمیں بلاول بھٹو کا شکرگزار ہونا چاہیے جنہوں نے 27ویں ترمیم بارے ٹویٹ کر کے میڈیا اور عوام کو حیران کر دیا، کیونکہ اب 26ویں ترمیم کی طرح خاموشی سے اگلی ترمیم کروانا شاید کچھ مشکل ہو جائے۔ سب سے زیادہ حیران تو وزیراعظم شہباز شریف اور بھائی لوگ ہوئے ہوں گے کیونکہ وہ یہ توقع نہیں کر رہے ہوں گے کہ بلاول ان ترامیم کو یوں اٹھا کر عوامی کٹہرے میں لے آئیں گے اور فوری طور پر اس حوالے سے بحث شروع ہو جائے گی۔ یقینا بلاول بھٹو نے یہ ترامیم عوام اور میڈیا کے سامنے بہت سوچ سمجھ کر رکھی ہوں گی اور انہیں متوقع نتائج کا بھی اندازہ ہو گا۔
روف کلاسرا کہتے ہیں کہ شاید یہ مشورہ انہیں صدر آصف زرداری نے دیا ہو تاکہ اس ترمیم کا بوجھ بانٹا جا سکے۔ وزیراعظم شہباز شریف چونکے تو ہوں گے کہ بلاول بھٹو نے سب کچھ سب کو بتا دیا ہے۔ اگرچہ گزشتہ ترمیم کے وقت بھی مشکلات پیش آئی تھیں‘ اور بہت سے تنازعات اُٹھ کھڑے ہوئے تھے اور بھانت بھانت کی بولیاں بولی جا رہی تھیں۔ اُس وقت آئینی عدالت کا قیام اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو اس کا سربراہ بنانے کی باتیں ہو رہی تھیں‘ فوج کے سربراہ کی مدتِ ملازمت اور دیگر اہم ایشوز ترمیمی پیکیج کا حصہ تھے۔ تب شہباز شریف حکومت کا مسئلہ یہ تھا کہ ان کے پاس پارلیمنٹ میں عددی اکثریت نہیں تھی لہٰذا انہیں مولانا فضل الرحمن کی حمایت درکار تھی۔ مولانا کو راضی کرنے کیلئے کئی وزیروں نے ان کے گھر چکر کاٹے۔ ان دنوں عمران خان کی پارٹی کے لوگ بھی مولانا صاحب کے گھر ڈیرہ جما کر بیٹھ جاتے تھے۔ ایک وقت تو ایسا بھی آیا کہ پی پی پی کا وفد مولانا صاحب سے مل کر نکلتا تو باہر پی ٹی آئی کا وفد انتظار کر رہا ہوتا اور پی ٹی آئی والے ابھی اندر ہی بیٹھے ہوتے تو پتا چلتا کہ حکومتی وفد باہر پہنچ گیا ہے۔ اُن دنوں مولانا صاحب کا کچن قہوہ پلانے اور ڈرائی فروٹ کھلانے میں مصروف تھا۔
لیکن کلاسرا کہتے ہیں کہ اب مخصوص نشستیں ملنے کے بعد حالات بڑی حد تک حکومت کے حق میں ہیں اور مولانا صاحب کی وہ اہمیت نہیں رہی جو 26 ویں ترمیم کے وقت تھی۔ اسی لیے مولانا صاحب نے ابھی سے فائر ورک شروع کر دیا ہے اور وہ حکومت کو اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کی دھمکیاں بھی دے رہے ہیں۔ عوام کو بھی داد دیں کہ انہیں پاکستان میں استحکام اور ترقی بھی درکار ہے لیکن ہر ماہ کوئی نہ کوئی جتھہ سڑکوں پر نکلا ہوتا ہے۔ ہنگامے‘ مار دھاڑ‘ لوٹ مار‘ گرفتاریاں‘ گولیاں چل رہی ہوتی ہیں۔ عوام کو بھی سکون ان دنگوں ہی میں ملتا ہے اور ہر پارٹی اپنے جتھے سڑکوں پر نکال کر اسلام آباد لے آتی ہے۔
روف کلاسرا کے مطابق جب بھی آئینی ترمیم کا شور اٹھتا ہے تو ہر جماعت کو ملکی مفاد نظر آنے لگتا ہے حالانکہ اس میں ملکی سے زیادہ ذاتی مفادات ہوتے ہیں۔ اب سیاسی پارٹیاں کہہ رہی ہیں کہ وہ این ایف سی ایوارڈ کے معاملے پر لچک نہیں دکھائیں گی کہ صوبوں کا شیئر کم کر کے مرکز کا بڑھا دیا جائے۔ مرکز کہتا ہے کہ ہم کیا کریں‘ 2500 ارب دفاعی بجٹ‘ ایک ہزار ارب پی ایس ڈی پی‘ صوبوں کو تین چار ہزار ارب کے فنڈز‘ ایک ہزار ارب فوج کی پنشن‘ لاکھوں وفاقی ملازمین کی تنخواہیں اور ان کی اربوں کی پنشن اور غیر ملکی قرضوں اور سود کی آٹھ ہزار ارب کی ادائیگی کے بعد ہمارے پاس تو کچھ بچتا ہی نہیں اور ان اخراجات کیلئے سود پر مزید قرضے لینا پڑتے ہیں۔ سال
2010 تک صوبوں کے پاس کم اور مرکز کے پاس این ایف سی ایوارڈ کا زیادہ شیئر ہوتا تھا۔ پھر اٹھارہویں ترمیم آئی کہ مرکز سے اختیارات اور وزارتیں صوبوں کو منتقل کی جائیں۔ مرکز کے پاس صرف آٹھ دس وزارتیں رہنے دیں کہ چوبیس کلومیٹر کے مرکز کو کھربوں کے فنڈز کی کیا ضرورت ہے۔ یوں سب وزارتیں اور ان کے فنکشنز نیچے شفٹ کر دیے گئے کہ مرکز کا بوجھ کم ہوگا۔
27 ویں آئینی ترمیم : عمران خان سے مشاورت کے بعد ردعمل دیں گے، بیرسٹر گوہر
لیکن سوال یہ ہے کہ ایسا کرنے سے کیا بوجھ کم ہوا؟ اب بھی وہی چالیس وزارتیں چل رہی ہیں۔ بلکہ اب تو 40 مشیروں اور خصوصی مشیروں کا بھی اضافہ ہوگیا ہے۔ یوں ایک دلچسپ کام یہ ہوا کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد مرکز سے وزارتیں کم نہ ہوئیں بلکہ الٹا صوبوں میں نئی وزارتیں بن گئیں۔ جو کام چوبیس کلومیٹر میں ڈپٹی کمشنر دفتر میں بیٹھے ایک کلرک کا تھا وہی کام اب ایک وفاقی وزیر‘ وزیر مملکت‘ پھر مشیر اور پارلیمانی سیکرٹری مل کرکر رہے ہیں۔ ایسی ترمیم کا کیا فائدہ‘ اگر آپ نے چوبیس کلومیٹر کے شہر میں چالیس وزارتیں ہی رکھنی ہیں اور لاکھوں ملازمین بھی؟
