پی ٹی آئی کن اہم پاکستانی شخصیات پر پابندی لگوانا چاہتی ہے؟

معروف صحافی اور تجزیہ کار نصرت جاوید نے کہا یے کہ تحریک انصاف کی قیادت نئی ٹرمپ انتظامیہ کیساتھ مل کر پاکستان کی چند طاقتور ترین لیکن جمہوریت مخالف شخصیات پر پابندیاں لگوانے کی کوششوں میں مصروف یے۔
اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں نصرت جاوید کہتے ہیں کہ امریکہ میں کئی برسوں سے آباد خوش حال پاکستانیوں کی اس امید پر حیرت ہوتی ہے کہ ٹرمپ کے ذریعے دنیا کی واحد سپرطاقت کے دبائو سے پاکستان میں خالص جمہوریت بحال کروائی جا سکتی ہے۔ ان کے مطابق بات اب بحالی جمہوریت تک ہی محدود نہیں رہی۔ یہ امید بھی باندھی جارہی ہے کہ امریکہ کے ’’جمہوریت نواز‘‘ اراکین پارلیمان کی کاوشوں سے ہماری ریاست کے طاقتور ترین لیکن ’’جمہوریت دشمن‘‘ عہدے داروں کو ’’پابندیوں‘‘ کی زد میں لایاجا سکتا ہے۔ اس کے بعد وہ اپنی ذات اور اولاد کے لئے امریکی ویزے حاصل کرنے کے قابل نہیں رہیں گے۔ نہ ہی وہاں کوئی جائیداد خریدنے کے اہل۔امریکی بینکوں میں جمع ہوئی ایسے افراد کی دولت بھی منجمد کروائی جاسکتی ہے۔
نصرت کہتے ہیں کہ پاکستان سے کئی برس قبل امریکہ پہنچ کر وہاں آباد ہوئے میرے ہم وطنوں کو ایسے خواب دکھانے میں امریکی کانگریس کا ایک رکن جو ولسن بہت نمایاں ہے۔ موصوف کا تعلق ریاست جنوبی کرولینا کے شہر شارلٹ سے ہے۔ ولسن ہمارے برادر ملک چین کا کٹر دشمن ہے۔ حقارت سے ’’چائینز کمیونسٹ پارٹی‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے وہ درحقیقت چین کو ایسا ملک دکھانے کی کوشش کرتا ہے جو ایک آمرانہ جماعت کے ’’قبضے‘‘ میں ہے۔ لیکن درحقیقت ایک ارب سے زائد آبادی والے ملک کو، جو اقتصادی اعتبار سے امریکہ کو کئی میدانوں میں پچھاڑے چلا جارہا ہے، ایک سیاسی جماعت سے آزادی دلوانا‘‘ جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔
نصرت جاوید کہتے ہیں کہ جو ولسن صرف چینی کمیونسٹ پارٹی کو تباہ کرنے کی کاوش ہی نہیں کر رہا بلکہ اسے جارجیا، تیونس اور پاکستان میں بھی ’’جمہوریت‘‘ بحال کروانی ہے۔ ایران سے بھی اس کانگریس مین کو شدید نفرت ہے۔ لیکن چین کے علاوہ کم از کم چار دیگر ممالک کے عوام کی ’’آزادی‘‘ کے لیے بے چین جو ولسن ایک بڑھک باز کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ہماری پارلیمان کی طرح امریکہ کے ایوانِ نمائندگان میں بھی کوئی قانون نجی حیثیت میں پیش کرنے کے بعد منظور کروانا دشوار ترین عمل ہے۔ یہ کسی ایک فرد کے بس کی بات نہیں۔ معاملہ جب کسی دوسرے ملک پر پابندیاں عائد کرنے کا ہو تو انفرادی کاوش مزید کمزور ہوجاتی ہے۔ امریکہ ویسے بھی دیگر ملکوں میں اپنی ناپسندیدہ حکومتوں کو سازشوں اور بسااوقات براہ راست مداخلت سے تبدیل کرنے کا عادی رہا ہے۔ ایسے فیصلے انفرادی نہیں بلکہ ریاستی سطح پر ہوتے رہے ہیں۔
نصرت جاوید کے مطابق ہمارے خطے کے تناظر میں اس نے 1950ء کی دہائی میں برطانیہ کے ساتھ مل کر ڈاکٹر مصدق کی ایرانی عوام کی اکثریت کے ووٹوں سے منتخب ہوئی حکومت کا سازشی مداخلت سے تختہ الٹایا تھا۔ قوم پرست ڈاکٹر مصدق کو ہٹا کرایران رضا شاہ پہلوی کی ’’شہنشاہیت‘‘ کے حوالے کر دیا گیا۔ وہ ایرانی تاریخ کا بدترین آمر تھا جس کی انٹیلی جنس ایجنسی -ساواک- شہریوں کے لئے دہائیوں تک خوف کی علامت رہی۔ ایرانی عوام کو آزدی کا سانس لینے کے لئے 1979ء کی فروری تک انتظار کرنا پڑا۔ امام خمینی کی قیادت میں انقلاب برپا ہوا تو شاہی خاندان سمیت ان کے ریاستی معاونین کی بے پناہ تعداد ایران سے فرار ہوکر یورپ اور امریکہ چلی گئی۔ امریکہ نے فراخ دلی سے جمہوریت کے ان بدترین دشمنوں کو اپنے ہاں آباد کیا۔ لاطینی امریکہ کے ملک چلی کے مقبول صدر آلاندے بھی امریکی پشت پناہی کی وجہ سے قتل ہوئے تھے۔ ان کی جگہ لینے والے سفاک فوجی آمر -پنوشے- کو دو سے زیادہ دہائیوں تک امریکہ کی تھپکی میسر رہی۔
نصرت کہتے ہیں کہ پاکستان کا ذکر ہو تو امریکہ کی ایوب خان، جنرل ضیاء اور مشرف سے محبتوں کو میری نسل نے روزانہ کی بنیاد پر بھگتا ہے۔ لیکن امریکہ میں مقیم نیک دل عاشقان عمران خان اس گمان میں مبتلا ہیں کہ امریکہ بدل گیا ہے۔ ڈونلڈٹرمپ ایک کاروباری آدمی ہے۔ اپنے لوگوں کی ترقی وخوشحالی کا خواہش مند امریکہ کو دوبارہ ’’گریٹ‘‘ بنانا چاہتا ہے۔ وہ سیاست میں عمران ہی کی طرح نووارد تھا۔ ٹرمپ 2016 میں وائٹ ہائوس پہنچا تو بتدریج نظام حکومت چلاتے ہوئے ’’دریافت‘‘ کیا کہ امریکہ میں اصل حکومت تو ’’ڈیپ سٹیٹ‘‘ کی ہے۔ ’’ڈیپ سٹیٹ‘‘ سے قبل ا مریکہ کے ترقی پسند حلقوں میں ’’ملٹری انڈسٹری کمپلکس‘‘ کا بہت ذکر ہوتا تھا۔ اس کی بدولت طے یہ ہوا کہ روس کی قیادت میں قائم ہوئے ’’کمیونسٹ بلاک‘‘ کو نظریاتی ہی نہیں بلکہ فوجی اعتبار سے بھی تباہ وبرباد کردیا جائے گا۔ اس ہدف کے حصول کے لئے امریکہ میں ان صنعتوں کی بے پناہ ریاستی رقوم کے ذریعے سرپرستی ہوئی جو جدید ترین مہلک ہتھیار تیار کرنے کے لئے وقف تھیں۔ جدید ترین ہتھیار جب تیار ہوجائیں تو انہیں ’’ٹیسٹ‘‘ کرنے کے لئے دیگر ممالک پر جنگیں مسلط کرنا بھی لازمی ہوجاتا ہے۔ رواں صدی کے آغاز میں افغانستان اور عراق پر ایسی ہی جنگیں مسلط ہوئیں۔ جدید ترین ہتھیار استعمال تو ہوگئے مگر افغانستان اور عراق اربوں ڈالر کے زیاں کے باوجود ’’جمہوری مملکتوں‘‘ کی صورت اختیار نہیں کر پائے۔ دونوں ممالک میں غیر ملکی مداخلت بلکہ داعش جیسی انتہا پسند تنظیمیں پیدا کرنے کا سبب ہوئی۔ وحشیانہ لگن کے ساتھ یہ اپنی پسند کا ’’اسلام‘‘ نافذ کرنا چاہ رہی ہیں۔ لیکن یہ تنظیمیں کامل ابتری اور خلفشار کے سوا کچھ حاصل نہیں کر پائیں۔
نصرت کہتےنہین لیکن میرے سادہ لوح ہم وطن یہ فرض کیے بیٹھے ہیں کہ کاروباری شخص ہوتے ہوئے ٹرمپ اپنے ہاں کی ’’ڈیپ سٹیٹ‘‘ سے لڑتے ہوئے پاکستان جیسے ملکوں کی رعایا کو بھی جمہوری حقوق سے مالا مال کردے گا۔ ابھی تک سمجھ ہی نہیں پائے کہ اس کا حتمی مقصد فقط امریکہ کو ’’ایک بار پھر عظیم‘‘بنانا ہے یا کچھ اور۔ اس ہدف کے حصول کے لئے وہ قطعاََ غیر نظریاتی رویہ اپنائے ہوئے ہے۔ یو کرین کو قربان کرتے ہوئے روس کے صدر کے ساتھ صلح کو بے قرار بھی۔ غزہ کے حوالے سے وہ اسرائیل کے صیہونی انتہا پسندوں سے بھی دو قدم آگے جاچکا ہے۔ انڈیا نہایت ڈھٹائی سے دہرائے چلے جارہا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں دائمی امن اسی صورت قائم ہو سکتا ہے اگر نسلوں سے غزہ میں آباد فلسطینی سمندر کے کنارے موجود اس پٹی سے نکل کر دوسرے ملکوں میں منتقل ہوجائیں۔ غزہ کو فلسطینیوں سے خالی کروانا اس کی دانست میں امن کی ضمانت ہے۔ ایسے شخص سے پاکستان میں ’’خالص جمہوریت‘‘ بحال کرنے کے لئے مدد طلب کرنے سے پہلے کم از کم میں تو سوبار سوچوں گا۔