مخصوص نشستوں سے محرومی کے بعد PTI کیا کرنے جا رہی ہے؟

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کی جانب سے مخصوص نشستوں کے فیصلے کے بعد تحریک انصاف کو ایک نئے سیاسی بحران کا سامنا ہے کیونکہ قومی و صوبائی اسمبلی میں اپنی نمائندگی کم ہو جانے کے بعد پارٹی نہ صرف عددی اعتبار سے کمزور ہوئی ہے بلکہ مستقبل کی پارلیمانی سیاست میں اس کے لیے مؤثر کردار ادا کرنا ایک چیلنج بن چکا ہے۔
اس صورتحال میں دیکھنا یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی قیادت سیاسی میدان میں اپنی اہمیت برقرار رکھنے کے لیے کیا حکمت عملی اپنائے گی اور اسکا اگلا سیاسی قدم کیا ہو گا؟ فی الحال تحریک انصاف کی قیادت عدالتی فیصلے کے بعد کوئی احتجاجی تحریک چلانے کی پوزیشن میں اس لیے نہیں کہ نومبر 2024 کے دھرنے کی ناکامی کے بعد سے اس کی تمام احتجاجی کالز ناکامی کا شکار ہوئی ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ تازہ ترین عدالتی فیصلے کی روشنی میں مخصوص نشستوں سے محرومی کے بعد عمران خان کو سوچ سمجھ کر ایک جامع حکمت عملی وضع کرنی چاہیئے تا کہ پارٹی کے اندرونی اختلافات پر قابو پا کر اتحاد اور اتفاق ممکن بنایا جا سکے۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ عمران کی گرفتاری کے بعد سے پچھلے دو برس میں تحریک انصاف کا شیرازہ بگڑ چکا ہے اور کم از کم چھ مختلف دھڑے بن چکے ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نہ تو بیرسٹر گوہر کی چیئرمین شپ کو تسلیم کیا جا رہا ہے اور نہ ہی عمر ایوب خان کو پارلیمانی لیڈر مانا جا رہا ہے، لہذا نتیجہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کا ہر لیڈر اپنی من مانی کر رہا ہے جس کا صرف اور صرف نقصان ہو رہا ہے۔
ایسے میں تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ عمران خان کو ایک جامع حکمت عملی وضع کرتے ہوئے اپنی جماعت کو مزید نقصان سے بچانا ہو گا ورنہ ان کی جماعت مزید کمزور ہوتے ہوئے سیاسی خاتمے کی جانب گامزن ہو جائے گی۔ سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ کے مطابق بھارت کو حالیہ جنگ میں شکست دینے اور صدر ٹرمپ سے ملاقات کے بعد جنرل عاصم منیر کی زیر قیادت موجودہ ہائبرڈ نظام مزید مضبوط ہوا ہے اور تحریک انصاف کمزور تر ہو گئی ہے۔ ایسے میں عمران کی مزاحمتی سیاست تحریک انصاف کی رہی صحیح کمر بھی توڑ کر رکھ دے گی۔ انکا کہنا ہے کہ اگر ریاست اور اسکے اداروں کا عمران خان کے حوالے سے انتقام پسندانہ رویہ ہے، اور وہ تحریک انصاف کو نشانہ بنا رہے ہیں تو اس کی وجوہ پر بھی غور کرنا چاہیے کیونکہ ریاست سے ٹکرانے کا نتیجہ ایسا ہی نکلتا ہے۔ اگر عمران خان نے اپنی جماعت کو بچانا ہے تو انہیں مفاہمتی رویہ اپنانا ہو گا تاکہ کوئی درمیانی راستہ نگل سکے اور ان کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اختلافات میں کمی آ سکے۔
کیا ہنگامہ کرنے والے 26 پی ٹی آئی MPAs کی رکنیت منسوخی جائز ہے؟3
سینیئر صحافی احمد ولید کہتے ہیں کہ مخصوص نشستوں کے کیس میں سپریم کورٹ کے حتمی فیصلے سے تحریک انصاف کو ایک بڑا دھچکا لگا ہے۔ اس فیصلے سے نہ صرف پی ٹی آئی کی پارلیمانی اکثریت مزید کم ہوئی ہے بلکہ حکومت دو تہائی اکثریت حاصل کرنے جا رہی ہے جس کے بعد اسے کسی بھی قسم کی آئینی ترمیم کے لیے کسی سیاسی جماعت کا مرہون منت نہیں ہونا پڑے گا۔ احمد ولید کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ قانونی طور پر سراسر جائز ہے چونکہ الیکشن کمیشن کے قوانین یہ اجازت نہیں دیتے کہ ایک ایسی پارٹی جس کا پارلیمنٹ میں وجود ہی نہیں ہے، اسے مخصوص نشستیں دے دی جائیں، یہ معاملہ الیکشن کمیشن سے شروع ہوا اور ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ تک گیا، ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کی جانب سے فیصلے پر تنقید اس لیے ہو رہی ہے کہ جس پارٹی کے خلاف فیصلہ آیا ہے اس نے کبھی اپنی غلطی تسلیم نہیں کرنی۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر تحریک انصاف والے جماعت اسلامی میں بھی شامل ہو جاتے تو فیصلہ ان کے حق میں آنا تھا لیکن وہ سنی اتحاد کونسل میں شامل ہو گئے جس کی پارلیمنٹ میں نمائندگی ہی نہیں تھی اور یہی ان کی سب سے بڑی غلطی تھی۔
انہوں نے کہاکہ تحریک انصاف کے بانی عمران خان کی سٹریٹیجی پر ہی پوری پارٹی چل رہی ہے، کیونکہ کوئی اور بندہ نہیں جو پارٹی کے اندر فیصلہ لے سکے، عمران خان نے جو فیصلہ کرنا ہے اسی پر عمل درآمد ہونا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ عمران جیل میں بند ہیں لہذا وہ چند مخصوص لوگوں کی بریفنگ پر اہم فیصلے کر دیتے ہیں جس سے پارٹی کو نقصان ہو رہا ہے۔