انڈیا اور پاکستان کی جنگ میں کس نیوکلئر پاور کا پلہ بھاری رہے گا؟

پاکستان کے 6 شہروں پر بھارتی میزائیل حملوں کے نتیجے میں 26 سویلینز کی شہادتوں کے بعد یہ بحث تیز ہو گئی ہے کہ اگر دونوں ممالک کے مابین باقاعدہ جنگ شروع ہو جاتی ہے تو اس کا نتیجہ کیا نکلے گا اور کس ملک کا پلہ بھاری ہو گا۔ پاکستان کی جانب سے جوابی کارروائی میں بھارتی فضائیہ کے 6 جنگی جہاز تباہ ہوئے ہیں جبکہ پاکستان کے تمام جنگی طیارے محفوظ ہیں۔
یاد رہے کہ پاکستان اور انڈیا ماضی میں تین جنگیں لڑ چکے ہیں۔ پہلی جنگ 1948 میں لڑی گئی جبکہ دوسری جنگ 1965 میں ہوئی۔ آخری مرتبہ 1971 میں لڑی جانے والی جنگ کے نتیجے میں پاکستان کو مشرقی پاکستان کھونا پڑا جس کے نتیجے بنگلہ دیش وجود میں آیا تھا۔ تاہم اسکی بنیادی وجہ یہ تھی کہ مشرقی پاکستان کی اکثریت پاکستان سے علیحدگی پر قائل ہو چکی تھی لہذا یہ مقصد بھارتی فوجی مداخلت سے حاصل کر لیا گیا۔ پاکستان اور بھارت کے مابین محدود پیمانے پر چوتھی جنگ 1984 میں سیاچین کے مقام پر لڑی گئی جبکہ پانچویں جنگ 1999 میں کارگل کے مقام پر لڑی گئی۔
دنیا میں ہتھیاروں اور عسکری طاقت پر نظر رکھنے والی ویب سائٹ گلوبل فائر پاور کے مطابق 2025 میں دنیا کی سب سے طاقت ور عسکری قوتوں میں امریکہ، روس اور چین کے بعد انڈیا کا نمبر آتا ہے، یعنی وہ دفاعی اعتبار سے چوتھے نمبر پر کھڑا ہے۔ گلوبل فائر پاور کے مطابق اس لسٹ میں شامل 145 ملکوں میں پاکستان کا نمبر 12واں ہے۔ یہ لسٹ 55 مختلف عناصر کو مد نظر کر مرتب کی جاتی ہے جن میں جغرافیائی، معاشی، مقامی صنعت، قدرتی وسائل، اور کسی ملک کے پہلی، دوسری اور تیسری دنیا کے ملکوں سے تعلقات کو بھی مدِنظر رکھا جاتا ہے۔
لہذاپاکستان پر تازہ ترین بھارتی حملے کے بعد ایک اور جنگ کے خطرے سے دوچار ساؤتھ ایشیا کے دونوں نیوکلیئر ہمسایوں کی فوجی طاقت بارے جاننا بہت ضروری ہے۔
انڈیا اور پاکستان کے دفاعی بجٹ میں واضح فرق ہے۔ سویڈش تھنک ٹینک سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق سال 2024 میں انڈیا نے اپنے دفاع پر پاکستان کے مقابلے میں 9 گنا زیادہ رقم خرچ کی۔ اس رپورٹ کے مطابق 2025 میں انڈیا نے اپنے دفاع پر تقریباً 86 ارب ڈالرز کے برابر رقم خرچ کرنے کا منصوبہ بنایا ہے جبکہ پاکستان نے 25-2024 کے مالی سال کے لیے مسلح افواج کے لیے 10 ارب ڈالرز سے زیادہ رقم مختص کی ہے۔ گلوبل فائر پاور کے مطابق انڈیا کے پاس زمینی فوج کے 22 لاکھ اہلکار ہیں جبکہ فضائیہ کے اہلکاروں کی تعداد تین لاکھ 10 ہزار اور بحریہ کے اہلکاروں کی تعداد ایک لاکھ 42 ہزار ہے۔ اسکے مقابلے میں پاکستانی افواج میں برّی فوج کے تقریباً 13 لاکھ دس ہزار، بحریہ کے سوا لاکھ جبکہ فضائیہ کے 78 ہزار کے اہلکار ہیں۔
انڈین ایئرفورس کو دنیا کی چوتھی بڑی ایئرفورس مانا جاتا ہے، جسے پاکستان پر عددی برتری یقینی طور پر حاصل ہے۔ انڈین ایئرفورس کے پاس طیاروں کے 31 سکواڈرن ہیں۔ ہر سکوڈارن میں 17 یا 18 لڑاکا طیارے ہوتے ہیں، جبکہ اس کے حریف پاکستان ایئرفورس کے پاس 11 سکواڈرن ہیں۔ گلوبل فائر پاور کے اعدادوشمار کے مطابق انڈیا کے پاس جہاں 2229 طیارے ہیں وہیں پاکستان کے پاس موجود طیاروں کی تعداد 1399 ہے۔ اگر جنگی طیاروں کی بات کی جائے تو پاکستان کے 418 طیاروں کے مقابلے میں انڈیا کے پاس 643 جنگی طیارے ہیں۔
پاکستانی ایئر فورس کا سب سے کارآمد ہتھیار دو طرح کے طیارے ہیں جن میں امریکہ سے حاصل کردہ ایف سولہ اور چینی مدد سے تیار کردہ جے ایف 17 تھنڈر شامل ہیں۔ جے ایف 17 کی تیاری کا مقصد ایک ایسا طیارہ بنانا تھا جو ہلکا ہو، ہر موسم میں، اور دن رات ایک لڑاکا طیارے کا کام کر سکے۔ یہ طیارہ کامرہ میں قائم پاکستان ایروناٹیکل کامپلیکس اور چین کی چینگڈو ایئرکرافٹ انڈسٹری کے تعاون سے بنایا گیا۔ بھارت کی جانب سے پاکستان پر ہونے والے حملوں کے بعد جوابی کاروائی میں انہی طیاروں نے بھارتی جہازوں کو نشانہ بنایا ہے۔
دوسری جانب انڈین فضائیہ میں گذشتہ کچھ عرصے میں جو بڑا اضافہ ہوا ہے وہ فرانسیسی رافیل طیاروں کی انڈین فضائی بیڑے میں شمولیت ہے۔ جوہری اسلحے سے لیس ہونے کی صلاحیت رکھنے والا رافیل طیارہ فضا میں 150 کلومیٹر تک میزائل داغ سکتا ہے جبکہ فضا سے زمین تک مار کرنے کی اس کی صلاحیت 300 کلومیٹر تک ہے۔ یہ انڈین فضائیہ کی جانب سے استعمال ہونے والے میراج 2000 کی جدید شکل ہے اور انڈین ایئر فورس کے پاس اس وقت 51 میراج 2000 طیارے ہیں۔ تام بھارت کی جانب سے پاکستان پر ہونے والے تازہ حملوں کی جوابی کاروائی میں پاکستان ایئر فورس نے تین رافیل جہاز تباہ کرنے کا دعوی کیا ہے، یعنی فرانس سے جدید ترین رافیل طیارے حاصل کرنے کے باوجود بھارت پاکستان ائیر فورس پر فضائی برتری قائم کرنے میں ناکام رہا ہے۔
اسی طرح انڈیا کے آپریشنل ہوائی اڈوں کی تعداد 311 جبکہ پاکستان میں یہ تعداد 116 ہے۔ جہاں تک بحری قوت کی بات ہے تو انڈیا کو پاکستان پر ذیادہ بحری بیڑوں کی صورت میں برتری حاصل ہے۔ انڈیا کے پاس دو طیارہ بردار بحری جہاز موجود ہیں۔ اسکے برعکس پاکستان کے پاس کوئی طیارہ بردار بحری جہاز موجود نہیں۔ اگر میزائل پروگرام کی بات کی جائے تو پاکستان کا میزائل پروگرام کروز اور میدانِ جنگ میں استعمال ہونے والے ٹیکٹیکل بیلسٹک میزائلوں کے علاوہ کم اور درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائلوں پر مشتمل ہے۔ ٹیکٹیکل بیلسٹک میزائلوں میں ہتف سیریز کے ہتف ون اور نصر میزائل شامل ہیں جو 60 سے 100 کلومیٹر کے فاصلے تک مار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
اس کے بعد مختصر فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کی باری آتی ہے جن میں 200 کلومیٹر رینج والا ابدالی، 300 کلومیٹر تک مار کرنے والا غزنوی، 350 کلومیٹر کی رینج والا رعد، 700 کلومیٹر کی رینج والا بابر اور ساڑھے سات سو سے ایک ہزار کلومیٹر تک ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھنے والا شاہین ون میزائل شامل ہیں۔پاکستان کے میڈیم رینج میزائلوں میں غوری ون اور ٹو، ابابیل اور شاہین ٹو اور شاہین تھری شامل ہیں۔ ان میں سے غوری ون 1500 کلومیٹر جبکہ غوری ٹو دو ہزار کلومیٹر سے زیادہ فاصلے پر نشانہ لگا سکتے ہیں جبکہ ابابیل میزائل کی رینج 2200 کلومیٹر ہے۔ شاہین ٹو اور تھری پاکستان کے سب سے زیادہ فاصلے پر نشانہ بنانے والے میزائل ہیں جن کی رینج 2500 سے 2750 کلومیٹر تک ہے۔
ابابیل اور شاہین تھری ملٹیپل ری انٹر وہیکل یا ایم آر وی کہلاتے ہیں جو دشمن کے بیلسٹک میزائل ڈیفنس شیلڈ کو شکست دینے اور بے اثر کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں اور ماہرین کے خیال میں یہ پاکستان کے میزائل ہتھیاروں میں یہ سب سے بہترین صلاحتیوں والے میزائل سسٹمز ہیں۔ ابابیل جنوبی ایشیا میں پہلا ایسا میزائل ہے جو 2200 کلومیٹر کے فاصلے تک متعدد وار ہیڈز یا جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور مختلف اہداف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔
اس کے مقابلے میں انڈیا کا میزائل پروگرام 250 سے 600 کلومیٹر تک مار کرنے والے پرتھوی میزائلوں سے لے کر 1200 سے 8000 کلومیٹر تک مار کرنے والے اگنی سیریز کے میزائلوں کے علاوہ کروز میزائلوں پر مشتمل ہے۔ اگنی بین البراعظمی بیلسٹک میزائل ہیں،جن میں اگنی-فائیو بھی شامل ہے اور اس کی رینج سات سے آٹھ ہزار کلومیٹر تک ہے۔
اگر ڈرونز کے لحاظ سے انڈیا اور پاکستان کی عسکری صلاحیتوں کا موازنہ کیا جائے تو دونوں ممالک نے ماضی قریب میں اس میں اضافہ کیا ہے۔ اکتوبر 2024 میں، انڈیا نے امریکہ کے ساتھ ساڑھے تین ارب ڈالر مالیت کے 31 پریڈیٹر ڈرون خریدنے کا معاہدہ کیا تھا۔ پریڈیٹر کو دنیا کا سب سے کامیاب اور خطرناک ترین ڈرون مانا جاتا ہے۔ پاکستان کے پاس ‘انڈیا سے کم ڈرون ہیں لیکن اس کے باوجود پاکستان کے پاس موجود ڈرونز میں مختلف صلاحیتیں ہیں اور یہ 10 سے 11 مختلف ساخت کے ہیں۔
پاکستان کے پاس مختلف اقسام کے ڈرونز موجود ہیں، جن میں مقامی طور پر تیار کردہ اور درآمد شدہ دونوں شامل ہیں۔ مقامی سطح پر تیار کردہ ڈرونز میں شہپر، براق اور عقاب شامل ہیں۔ شہپر نامی ڈرون ایک جنگی ڈرون ہے جو 30 گھنٹے تک پرواز کر سکتا ہے اور میزائلوں سے لیس ہے، جبکہ براق پاکستان کا پہلا جنگی ڈرون ہے جسے دہشت گردوں کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔ عقاب ڈرون ٹیکٹیکل مقاصد یا نگرانی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر ڈرونز مکمل طور پر پاکستان میں تیار کیے گئے ہیں، اس کے علاوہ پاکستان نے ترکی اور چین سے بھی جدید ڈرونز درآمد کیے ہیں جو جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس ہیں اور اپنے ہدف کو نشانہ بنانے اور طویل فاصلے تک پرواز کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ انڈیا اور پاکستان دونوں کے پاس جوہری ہتھیار ہیں لیکن گلوبل فائر پاور نے اپنی رپورٹ میں جوہری ہتھیاروں کا ذکر نہیں کیا ہے۔ تاہم سویڈش تھنک ٹینک سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی 2024 کی رپورٹ کے مطابق جوہری وار ہیڈز کے لحاظ سے دونوں ممالک ہم پلہ دکھائی دیتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق جہاں انڈیا کے پاس اندازاً 172 ایٹمی وار ہیڈز ہیں وہیں پاکستان کے پاس ایسے وار ہیڈز کی تعداد اندازاً 170 ہے۔تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ دونوں ممالک نے ان میں سے کتنے جوہری وار ہیڈز کارروائی کے لیے تیار حالت میں رکھے ہوئے ہیں۔