انڈین حملے میں مولانا مسعود اظہر کے خاندان کے 10 افراد ہلاک

کشمیر کی آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والی جہادی تنظیم جیش محمد کے سربراہ مولانا مسعود اظہر نے تصدیق کی ہے کہ بہاولپور شہر میں احمد پور شرقیہ کی جامع مسجد سبحان اللّٰہ پر بھارتی میزائیل حملے میں ان کے خاندان کے 10 افراد اور چار قریبی ساتھی بھی مارے گئے ہیں۔ بھارتی میزائیل حملوں میں شہید ہونے والوں میں مولانا مسعود اظہر کی بڑی بہن اور ان کے شوہر کے علاوہ مولانا کے بھانجے اور ان کی اہلیہ بھی شامل ہیں۔ انکے علاوہ مولانا مسعود اظہر کی ایک اور بھانجی اور ان کے خاندان کے پانچ بچے بھی مرنے والوں میں شامل ہیں۔ اسکے علاوہ مسعود اظہر کے ایک قریبی ساتھی اور ان کی والدہ اور دو دیگر قریبی ساتھی بھی مارے گئے ہیں۔

مولانا مسعود اظہر نے بیان میں انڈین وزیراعظم نریندر مودی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’اس ظلم نے سارے قانون اور ضابطے توڑ دئیے ہیں، لہٰذا اب ہم سے بھی رحم کی امید نہ رکھی جائے۔‘ یاد رہے کہ بہاولپور شہر میں جیش محمد کا مرکزی ہیڈ کوارٹر واقع ہے، دوسری جانب پاکستانی حکام کا دعوی ہے کہ اسے کئی برس پہلے بند کر دیا گیا تھا۔ تاہم بھارتی حکومت کا دعوی ہے کہ اس نے پاکستان میں جن مقامات کو میزائل حملوں کا نشانہ بنایا ہے وہاں دو جہادی تنظیموں، لشکر طیبہ اور جیش محمد کے ٹریننگ کیمپ موجود تھے۔

خیال رہے کہ اس سے پہلے 2019 میں بھی جب بھارتی فضائیہ نے پاکستانی کشمیر کے علاقے بالاکوٹ پر حملہ کیا تھا تو اسکی وجہ جیش محمد کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کے علاقے پلوامہ میں بھارتی فوجیوں کے قافلے پر کیا جانے والا ایک خودکش حملہ تھا جس میں 40 فوجی مارے گئے تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری مولانا مسعود اظہر کی جیش محمد نے قبول کی تھی۔ اس حملے کے 12 روز بعد انڈین جنگی جہازوں نے آزاد کشمیر کے علاقے بالا کوٹ میں بمباری کر کے جیش محمد کے ٹھکانے تباہ کرنے اور عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ تاہم انڈیا اس حوالے سے کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکا تھا۔

اس سے پہلے دسمبر 1999 میں ایک بھارتی مسافر طیارے کی ہائی جیکنگ کے بعد مولانا مسعود اظہر کو بھارتی جیل سے رہا کر دیا گیا۔ مولانا مسعود نے رہائی کے بعد جیش محمد نامی جہادی تنظیم تشکیل دی جس نے بھارت میں کئی دہشت گرد حملے کیے۔ ان میں سال 2001 میں انڈین پارلیمنٹ پر حملہ، 2000 میں جموں و کشمیر کی اسمبلی پر حملہ، 2016 میں پٹھان کوٹ میں انڈین ائیر بیس پر حملہ اور 2019 میں پلوامہ میں فوجی قافلے پر خودکش حملہ شامل ہے۔ عالمی دباؤ کے پہش نظر 2002 میں جنرل پرویز مشرف نے جیشِ محمد پر پابندی لگادی اور مسعود اظہر کو نظر بند کر دیا۔لیکن 14 دسمبر 2002ء کو لاہور ہائی کورٹ نے اسکی نظر بندی کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے رہائی کا حکم دے دیا تھا۔ اسی دوران اس کی جماعت ‘تنظیمِ خدام الاسلام’ کے نام سے کام کرنے لگی لیکن اسے بھی بعد میں حکومتِ پاکستان نے کالعدم قرار دے دیا تھا۔ اُس کے بعد مولانا مسعود اظہر نے گوشہ نشینی اختیار کر لی تھی اور بہاولپور میں ہی اپنے مدرسے میں مصروف ہیں۔

Back to top button