جعلی فٹبال ٹیم جاپان بھجوانے میں کونسے سرکاری افسر ملوث تھے

کھیلوں کی آڑ میں انسانی سمگلنگ کے سکینڈل بارے جاری تحقیقات میں سنسنی خیز انکشافات سامنے آ گئے۔ 22 رکنی جعلی فٹبال ٹیم جاپان بھجوانے میں وزارت خارجہ کی بڑی مچھلیاں ملوث نکلیں ذرائع کے بقول جعلی فٹبال ٹیم سکینڈل میں وزارت خارجہ کے بعض کرپٹ افسران نے کروڑوں روپے کی رشوت وصول کر کے جعلی دستاویزات پر بغیر تصدیق کے این اوسی جاری کیا۔ جس کے بعد انسانی سمگلر جعلی فٹبال ٹیم کو جاپان بھجوانے میں کامیاب رہے۔ تحقیقات میں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ملوث ملزمان نے وزارت خارجہ، وزارت داخلہ اور پاکستان سپورٹس فیڈریشن کے علاوہ ایف آئی اے امیگریشن کے پورے نظام کو بھی بائی پاس کیا اور یہاں موجود کالی بھیڑوں کی سہولت کاری سے اپنی واردات میں کامیاب رہے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کھیلوں کی آڑ میں انسانی سمگلنگ ایک منظم دھندہ بن چکا ہے۔
ایف آئی اے کی جانب سے جاری ابتدائی تحقیقات میں معلوم ہوا ہے کہ جعلی پاکستانی فٹبال ٹیم کو جاپان لے کر جانے کا بندوبست کرنے والے ملزم وقاص علی نے تمام ٹیم اراکین سے 45 لاکھ روپے فی کس لئے تھے۔ یعنی مجموعی طور پر تقریبا 10کروڑ سے زائد رقم بٹوری گئی تھی۔ تاہم تمام تر جعلسازی اور دھوکہ دہی کے باوجود 22رکنی جعلی سکواڈ جاپان میں پکڑا گیا جس پر نہ صرف پاکستان کو شدید سبکی کا سامنا کرنا پڑا بلکہ سیکنڈل میں وزارت خارجہ کے گھناؤنے کردار نے حکومت کیلئے بھی خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔
ذرائع کے مطابق حکومت نے اس سیکنڈل میں ملوث پورے نیٹ ورک کو بے نقاب کرنے اور قرار واقعی سزا دینے کا فیصلہ کر لیا ہے جس کے بعد ایف آئی اے کو اس حوالے سے کسی قسم کا دباؤ برداشت نہ کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے گرین سگنل ملنے کے بعد ایف آئی اے نے سکینڈل میں ملوث تمام افراد کے بینک اکاؤنٹس کی چھان بین شروع کر دی ہے تاکہ وصول کی جانے والی رقوم کا سرکاری اہلکاروں اور افسران سے لین دین کے ثبوت حاصل کر کے انھیں کیس فائل کا حصہ بنایا جا سکے۔
ماہرین کے مطابق 22رکنی جعلی فٹبال ٹیم کی جاپان روانگی اور ڈی پورٹیشن کا عمل نہ صرف ایک سنگین انسانی سمگلنگ کیس ہے ۔ بلکہ اس نے پاکستان میں کھیلوں کی آڑ میں انسانی سمگلنگ کے بڑھتے ہوئے رجحان اور متعلقہ سرکاری اداروں کی ناقص کارکردگی پر بھی سنگین سوالات کھڑے کر دیئے ہیں۔ جب قانون کے محافظ سرکاری اہلکار ہی اپنی پوزیشن کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے رشوت کے عوض جعلی این او سی جاری کرنے لگیں تو اس سے بڑا سیکیورٹی رسک اور کیا ہو سکتا ہے؟ ایسے افراد صرف ادارے نہیں، ریاست پاکستان کے مفادات کے بھی دشمن ہیں۔ ایسے افراد کو نوکریوں سے برطرف کر کے نشان عبرت بنانا چاہیے تاکہ آئندہ کسی کو ملک کی عزت کے ساتھ کھلواڑ کی جرات نہ ہو۔
ایف آئی اے کی ابتدائی تفتیش میں معلوم ہوا ہے کہ مرکزی ملزم وقاص علی جعلی فیڈ ریشن اور وزارت خارجہ کے این اوسی بنا کر 22 افراد کے ویزے حاصل کرنے میں کامیاب رہا، ملزم کی یہ پہلی واردات نہیں ملزم اس سے قبل 2024ء میں بھی اسی طریقے سے کم از کم 17 نو جوانوں کو جاپان بھجوا چکا ہے جو بعد ازاں واپس نہیں آئے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ یہ فرد واحد کی کارستانی نہیں بلکہ ایک منظم سمگلنگ گینگ کی کارروائی ہے، ایف آئی اے حکام اب اس گینگ کے دیگر ممکنہ اراکین کا سراغ لگانے میں مصروف ہیں۔ تاکہ پورے ریکٹ کو بے نقاب کیا جا سکے۔
مبصرین کے مطابق زمینی اور سمندری راستوں میں خطرات بڑھنے کے بعد کھیلوں یا ثقافتی پروگراموں کی آڑ میں انسانی سمگلنگ ایک آزمودہ طریقہ بن چکا ہے۔ ملزمان اکثر سپورٹس فیڈ ریشنز کے لیٹر ہیڈ ز ، جعلی کٹس اور دستاویزات پیش کرتے ہوئے امیگریشن اور سفارتی چینلز تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس واقعے میں بھی ملزم نے ” گولڈن فٹبال ٹرائل کلب کے نام سے ایک جعلی ادارہ قائم کیا، کھلاڑیوں کو کٹس اور وردیاں دیں اور سفارتخانے سے ویزے حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔ تاہم جاپان پہنچنے پر جاپانی امیگریشن نے ان کی شناخت پر سوالات اٹھائے اور یہ پورا گروہ بے نقاب ہوگیا۔
ناقدین کے مطابق 22رکنی جعلی فٹبال ٹیم کی جاپان روانگی کے واقعے نے وزارت خارجہ کے ساتھ ساتھ وزارت داخلہ اور وزارت سپورٹس کے کردار پر بھی سوالات کھڑے کر دئیے ہیں کیونکہ وزارت داخلہ، ایف آئی اے اور امیگریشن حکام کی نگرانی کرتی ہے۔ جبکہ وزارت خارجہ، وزارت سپورٹس اور فیڈریشنز مختلف کلبز کو این اوسی جاری کرتی ہیں۔ مگر اس کیس سے یہ بات عیاں ہوتی کہ سرکاری خطوط اور این اوسی کے اجرا کے عمل میں حفاظتی میکانزم یا تصدیقی نظام ناہونے کے برابر ہے۔ ماہرین کے مطابق این او سی جاری کرنے سے پہلے کھلاڑیوں کی شناخت، سابقہ ریکارڈ اور سفارت خانوں سے دو طرفہ تصدیق لازمی ہونی چاہیے تا کہ اس قسم کے دھو کے رو کے جاسکیں۔ حالیہ سکینڈل میں اگر چہ ایف آئی اے نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے مرکزی ملزم کو گرفتار کر لیا ہے، لیکن اصل کامیابی تبھی ممکن ہے جب پولیسنگ کے بعد مقدمات تیز رفتاری سے چلیں ۔ شواہد مضبوطی سے پیش کیے جائیں۔ ملزمان کے مالی ریکارڈ اور بین الاقوامی روابط تک رسائی حاصل کی جائے اور سخت سزا یقینی بنائی جائے۔ تاکہ آئندہ کوئی بھی ایسی حرکت کی جرات نہ کرے۔
