طالبان دہشت گرد اور کشمیری اور فلسطینی حریت پسند کیوں ہیں؟

دہشت گرد اور حریت پسند میں باریک سا فرق ہوتا ہے، بس وہی جاننے کی ضرورت ہے، وگرنہ نیت تو طالبان کی بھی شریعت نافذ کرنے کی تھی، اسی لیے ہمارے بہت سے مہربان دھوکہ کھا گئے، اور اِس باریک فرق کو نہ جان پائے۔ معروف لکھاری اور تجزیہ کار یاسر پیرزادہ روزنامہ جنگ میں ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کشمیر اور فلسطین کا معاملہ بھی یہی ہے۔ اِس مسئلے پر جب بھی بات ہوتی ہے تو کچھ باتیں فرض کر لی جاتی ہیں جیسے کہ کشمیریوں اور فلسطینیوں کو مسلح جدوجہد کا شوق ہے اور انہوں نے کبھی پُرامن راستہ اپنانے کا نہیں سوچا، اور یہ کہ جس طرح ہندوستان نے پُرامن سیاسی جدوجہد کے ذریعے آزادی حاصل کی اسی طرح کشمیر اور فلسطین کی آزادی بھی ممکن بنائی جا سکتی تھی۔
بظاہر اس دلیل میں وزن ہے مگر وہی بات کہ باریکی میں جائیں تو انگریزی محاورے کے مِصداق اسے سیب کا سنگترے کے ساتھ موازنہ قرار دیا جائے گا۔ دنیا میں آزادی کی تحریکوں کی مختلف شکلیں ہیں، کوئی ایک ایسا فارمولہ نہیں جو سب تحریکوں پر یکساں لاگو کیا جا سکے۔ سینیئر صحافی اور تجزیہ کار انصار عباسی اس حوالے سے کہتے ہیں کہ دہشت گردی اور آزادی کی تحریکوں میں فرق کو سمجھنا نہایت ہی ضرروی ہے۔ کشمیری عوام اپنے حقوق اور کشمیر کی آزادی کی جنگ لڑ رہے اور بھارت کی کشمیر میں موجود سات لاکھ فوج کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں۔ اب تک ہزاروں کشمیری بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں شہید ہو چکے ہیں، ہزاروں کشمیری ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی عزتیں بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں پامال ہو چکی ہیں اور ہزاروں کشمیری بھارتی فوجیوں کی پیلٹ گن کی گولیوں کا نشانہ بن کر معذور ہو چکے ہیں۔ سب سے بڑھ کر کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادیں موجود ہیں کہ کشمیر میں رائے شماری کرائی جائے کہ کشمیری عوام بھارت کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا نہیں لیکن بھارت کشمیر میں رائے شماری کرانے پر کسی بھی صورت میں تیار نہیں ہورہا ہے۔ ایسے میں جب اب کشمیری اپنے حقوق کے لیے ہھتیار اٹھاتے ہیں تو یہ دہشت گردی نہیں بلکہ حریت پسندی کہلائے گی۔
انصار عباسی کے بقول اسی طرح فلسطین اور بیت المقدس پر اسرائیل نے غاضبانہ قبضہ کر رکھا ہے۔ اسرائیل آئے روز بمباری سے بے گناہ فلسطینی مردوں، عورتوں اور بچوں کو شہید کرتا رہتا ہے۔ فلسطینی اپنی آزادی اور حقوق کے حصول کے لیے اسرائیل کے ریاستی جبر اور دہشت گردی کے خلاف جدو جہد کر رہے ہیں لہازا اسے دہشت گردی کسی بھی صورت میں نہیں کہا جا سکتا۔ نیلسن مینڈیلا نے جنوبی افریقہ میں نسلی امتیاز کے خلاف طویل جدوجہد کی لیکن ان کی تنظیم کو دہشت گرد تنظیم کہا جاتا تھا، تاہم آج وہی دنیا نیلسن مینڈیلا کی عزت کرتی ہے۔ یہاں اس باریک نکتے کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو آزاد پیدا کیا ہے اور انسان اپنی آزادی کے لیے آخری حد تک جاتا ہے۔ یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ آزادی انسان کا پیدائشی حق ہے اور اپنی آزادی کے لیے جدوجہد کرنا اور لڑنا بالکل جائز اور قانونی ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کا مقصد انسانوں کو زک پہنچا کر اپنے برے مقاصد کی تکمیل ہوتا ہے۔ دہشت گرد کسی دوسری طاقت کی پراکسی ہوتے ہیں۔ دہشت گردی کی صرف ایک صورت ہوتی ہے کہ وہ زیر زمین اور پوشیدہ رہ کر اپنا وجود منواتی ہے جبکہ آزادی کی جدو جہد کی کئی صورتیں اور کئی چہرے اور مہرے ہوتے ہیں۔جیسا کہ سیاسی، سفارتی اور عسکری وغیرہ۔ دہشت گرد جبر اور تشدد سے اپنے برے مقاصد اور اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں جبکہ آزادی کے متوالے جبر و تشدد اور ریاستی دہشت گردی کے خلاف لڑ کر اور ظلم کا مقابلہ کر کے اپنی آزادی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ دہشت گردی اور آزادی دونوں میں نیت کا فرق واضح ہے کہ دہشت گردی برے مقاصد کے حصول کے لیے بری نیت سے کی جاتی ہے جبکہ حریت پسندی اچھی نیت سے اپنی آزادی حاصل کرنے کے لیے کی جاتی ہے۔ اپنی آزادی اور حقوق کے لیے لڑنا اور جدوجہد کرنا کسی بھی صورت میں دہشت گردی نہیں ہے لیکن امریکا، بھارت اور اسرائیل نے کشمیراور فلسطین کی آزادی کی تحریکوں کو دبانے کے لیے دہشت گردی کہنا شروع کر دیا جو سراسر غلط ہے۔
اس معاملے پر رائے زنی کرتے ہوئے لکھاری یاسر ہیرزادہ کہتے ہیں کہ آج کی تاریخ میں اگر اسرائیلی فوج غزہ اور مغربی کنارے کو صفحہ ہستی سے مِٹا بھی دیتی اور فلسطینیوں کی پوری نسل ختم کر دیتی تو بھی مغربی دنیا کے کان پر جوں نہ رینگتی اور وہ اُسی کرّوفرَ کیساتھ کرسمس مناتے جس طرح انہوں نے منائی ہے۔ آج کی تاریخ میں اگر فلسطینی وہ تمام کام کر بھی لیں جن کا مشورہ دانا دوست جذباتی ہوئے بغیر دیتے ہیں تو بھی اُن کیساتھ وہی سلوک کیا جائیگا جو نازی جرمنی میں یہودیوں کیساتھ حراستی مراکز میں کیا گیا تھا، اُن کے بچوں کو بھی نہیں بخشا گیا تھا۔ بطور لکھاری ہمارا کام صرف یہ ہے کہ جس بات کو درست سمجھیں وہی لکھیں۔
یاسر پیرزادہ کے بقول مُسلّح جدوجہد کوئی رومانوی تصور نہیں جسے آئیڈلائز کیا جائے، کوئی بھی شخص اپنی خوشی سے سر پر کفن باندھ کر گھر سے نہیں نکلتا اور نہ ہی کوئی اپنے بچوں کو غیر ملکی قابض فوج کے ہاتھوں قتل ہونے کے لیے چھوڑنا چاہتا ہے۔ ہمیں صرف یہ باریک سا فرق سمجھنا ہے کہ حراستی کیمپوں میں رہنے والوں کے پاس فیصلہ کرنے کی چوائس نہیں ہوتی، یہ اختیار ہی اُن کے پاس نہیں ہوتا کہ وہ بندوق تانے ہوئے فوجیوں کے ساتھ مذاکرات کریں۔ فلسطینیوں کے معاملے میں اسرائیلی فوج بالکل اسی طرح بے حس ہے اور اُن کے نزدیک ایک فلسطینی کی زندگی کی اِتنی ہی وقعت ہے کہ اُسے جب چاہیں بغیر کسی وجہ کے ختم کر دیں، اِسکے لئے انہیں کسی 7 اکتوبر کا انتظار کرنے یا حماس کی کارروائی کو جواز بنانے کی ضرورت نہیں۔حراستی کیمپ سے آزادی فقط دشمن سے لڑ کر حاصل کی جا سکتی ہے، اب تک کی تاریخ تو یہی بتاتی ہے۔