اپوزیشن پارٹیز کو ساتھ ملانے کی PTI کی کوشش ناکام کیوں ہو رہی ہے؟

پی ٹی آئی قیادت نے اقتدار سے بے دخلی کے بعد سے اختیار کی گئی ہر حکمت عملی میں ناکامی کے بعد ایک بار پھر سڑکوں پر آنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ تاہم اب کی بار یوتھیے رہنما سولو فلائٹ لینے کی بجائے اپوزیشن کے ساتھ ملکر احتجاجی حکمت عملی اختیار کرنے کے خواہاں ہیں تاہم دوسری جانب اپوزیشن جماعتیں پی ٹی آئی قیادت سے ملاقاتیں تو ضرور کر رہی ہیں تاہم یوتھیوں کی ماضی کی وعدہ خلافیوں اور دشنام گوئی کی وجہ سے ان کے ساتھ ملکر آگے بڑھنے کی یقین دہانیاں کروانے سے گریزاں دکھائی دیتے ہیں۔

مبصرین کے مطابق مسلسل احتجاجی عمل، اس کے بعد مذاکرات اور اب مذاکراتی عمل میں آنے والے ڈیڈ لاک کے بعد پی ٹی آئی نے اپوزیشن کے گرینڈ الائنس کیلئے تگ دو شروع کر رکھی ہے لیکن ابھی تک پی ٹی آئی اس حوالے سے اپوزیشن جماعتوں کو مطمئن نہیں کر پا رہی کہ کسی بھی اتحاد کی صورت میں فیصلوں کا اختیار کس کے پاس ہوگا اور کیا شہباز حکومت کے خلاف جدوجہد، اسے اقتدار سے باہر کرنے تک محدود ہوگی یا اتحاد کا یہ عمل حکومت کے بعد بھی قائم رہے گا۔

یہاں پر یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا پی ٹی آئی کے اپوزیشن کی دیگر جماعتوں سے روابط نتیجہ خیز ہوں گے یا اپوزیشن جماعتوں کے مابین مذاکراتی عمل صرف نشستن، گفتن برخاستن تک ہی محدود ہو گا؟

سینئر صحافی اور تجزیہ کار سلمان غنی کے مطابق ماضی میں اپوزیشن جماعتوں کا احتجاج حکومتوں کے خلاف اس لئے اہمیت کا حامل رہا ہے کہ ماضی میں اس کے پیچھے بعض غیر سیاسی قوتوں کی تھپکی اور سگنلز رہے ہیں اور پی ٹی آئی کو اس احتجاجی عمل میں سخت ترین حالات کا سامنا نہیں کرنا پڑا کیونکہ پی ٹی آئی کے اس احتجاج سے حکومتوں کو دباؤ میں لانے کا مقصد حاصل کیا جاتا رہا ہے۔ سلمان غنی کے مطابق بانی پی ٹی آئی کے جارحانہ طرز عمل اور احتجاجی سیاست کو اس وقت تک نتیجہ خیز قرار دیا جاتا رہا ہے جب تک وہ اقتدار میں نہیں آئے۔تاہم اقتدار میں آنے کے بعد بھی انہوں نے اپنے سیاسی مخالفین کو دیوار سے لگایا اور جیلوں میں بھجوانے کے لئے ممکنہ اعلانات اور اقدامات بھی کئے۔ اسے بھی قبولیت حاصل رہی تاہم عمران خان نے اپنے دور اقتدار میں ٹارگٹ کرنے کے عمل کو صرف سیاستدانوں اور مخالفین تک ہی محدود نہیں کیا بلکہ انہوں نے یہ سلسلہ ان تک بھی وسیع کر لیا جن کی آشیر باد اور تھپکی ان کے مسند اقتدار پر پہنچنے کا باعث بنی تھی۔ جس کے بعدعمران خان کا زوال شروع ہو گیا۔ اب پی ٹی آئی کی احتجاجی حکمت عملی کی کامیابی کے امکانات معدوم ہیں کیونکہ اداروں میں موجود پی ٹی آئی کے سہولتکار یا تو گرفت میں آ چکے ہیں یا چھپتے پھر رہے ہیں۔  سلمان غنی کے بقول جہاں تک اب پی ٹی آئی کی دیگر جماعتوں کے ساتھ ملکر احتجاجی حکمت عملی کا سوال ہے تو حقیقت یہ ہے کہ پی ٹی آئی کا دیگر سیاسی جماعتوں سے کام کرنے کا تجربہ اور سلوک اچھا نہیں رہا کیونکہ پی ٹی آئی ہمیشہ سے اتحادی سیاست کی بجائے سولو پرواز کی حامی رہی ہے ، تاہم اب وہ ماضی کے برعکس پھر سے دیگر سیاسی جماعتوں کی طرف توجہ کرتی نظر آ رہی ہے تاہم کوئی نیا اتحاد بننے اور اس کے کامیابی سے آگے چلنے کے امکانات معدوم ہیں کیونکہ اپوزیشن جماعتوں کے مابین اعتماد سازی کا فقدان ہے یہی وجہ ہے کہ اس سے پہلے ایک اتحاد تحریک تحفظ آئین پاکستان کی صورت میں محمود اچکزئی کی صدارت میں بنا لیکن یہ سیاسی محاذ پر پذیرائی حاصل نہیں کر سکا۔

سلمان غنی کے مطابق پی ٹی آئی کا ہدف تو نئے انتخابات ہوں گے تو کیا پی ٹی آئی اپنے مقصد کے حصول کیلئے تمام اپوزیشن جماعتوں کو ساتھ لیکر چل پائے گی۔ سلمان غنی کے بقول اس سوال کا واضح جواب پی ٹی آئی کی قیادت کے پاس بھی موجود نہیں اور وہ اس بات پر اکتفا کرتے نظر آتے ہیں حالات بدلیں گے تو پھر دیکھیں گے ۔ سلمان غنی کے مطابق جب تک گرینڈ الائنس کا ایجنڈا واضح نہیں ہوتا کسی بڑے اپوزیشن اتحاد کے بننے کے امکانات نظر نہیں آتے ویسے بھی آج کے حالات میں مولانا فضل الرحمن اور جماعت اسلامی سمیت دیگر اپوزیشن جماعتیں کسی ایسے اتحاد کا حصہ بننے کے لئے تیار نہیں ہونگی جس کا مقصد صرف اور صرف اپنے لئے ریلیف اور اپنے اقتدار کا راستہ ہموار کرنا ہو اس لئے کہ یہ جماعتیں ماضی میں یہ زخم کھا چکی ہیں کہ اتحادوں کی سیاست کر کے بڑی جماعتیں اپنا راستہ بنا کر مسند اقتدار پر پہنچ گئیں اور اتحادی ان کی راہ دیکھتے رہ گئے۔ اپوزیشن جماعتوں کی حالت بھی اب دودھ کے اس جلے کی ہے جو چھاچھ پھونک کر پیتے نظر آ رہے ہیں جہاں تک پی ٹی آئی کی مزاحمتی سیاست اور خصوصاً پی ٹی آئی کے پختونخوا کے صدر جنید اکبر خان کا پوری تیاری سے اسلام آباد جانے کا سوال ہے تو یہ امر اور یہ اعلان ظاہر کرتا ہے کہ ان کے عزائم اچھے نہیں اور ان کی یہ دھمکی کہ پنجاب کی طرف جانے والے راستے بند کریں گے اگر جنید اکبر خان یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی صدارت کے جواز کے لئے غیر معمولی صورتحال پیدا کر پائیں گے تو شاید اب ایسا ممکن نہ ہو۔سلمان غنی کے مطابق لگتا ہے کہ جنید اکبر کے سامنے بانی پی ٹی آئی عمران خان کی توقعات کا پہاڑ ہے تاہم جنید اکبر کو یہ بھی دیکھنا پڑے گا کہ اگلی طرف بھی ملک کا مفاد ہے جو حکومتوں کے ساتھ ریاست کیلئے بھی چیلنج ہوتا ہے۔پی ٹی آئی کی لیڈر شپ کو یہ دیکھنا ہوگا کہ پہلے مزاحمتی سیاست سے انہیں کیا ملا اور اب اسلام آباد کی طرف رخ کرنے سے انہیں کیا ملے گا اس لئے پی ٹی آئی کیلئے ایسی غیر سیاسی حکمت عملی اختیار کرنے سے احتراز ہی بہتر ہے۔

بعض دیگر مبصرین کے مطابق پی ٹی آئی نے 8فروری کو صوابی میں جلسے کا اعلان کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ یہ خیبرپختونخوا کی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ ہوگا۔ پی ٹی آئی کی ساری توجہ صوابی کے جلسے پر ہے۔ذرائع کے مطابق جنکی سفارش پر جنید اکبر خان کو صوبائی صدارت کی ذمہ داری دی گئی ہے انکے اور علی امین گنڈا پور کے درمیان شدید اختلافات کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ دوسری طرف چونکہ جنید اکبر اور انکے گروپ کے علی امین گنڈا پور کیساتھ اختلافات بھی پوشیدہ نہیں ہیں اسلئے پارٹی کی صوبائی صدارت کی ذمہ داری انکو دیدی گئی ہے۔ اس طرح یہ جنید اکبر خان کیلئے ایک بڑا امتحان ہے اور اس میں کامیابی یا ناکامی انکے مستقبل کا فیصلہ کرے گی۔  مبصرین کے مطابق منتخب صوبائی صدر نے پی ٹی آئی قیادت کو ہومیوپیتھک قرار دیا ہے اب 8فروری کو دیکھنا ہوگا کہ تمام تر بلند بانگ دعوئوں کے مطابق وہ ایلوپیتھک ثابت ہوتے ہیں یا حکیمی علاج کی طرف جاتے ہیں۔ ابھی تک نہ تو دیگر اپوزیشن جماعتیں پی ٹی آئی پر اعتماد کرنے پر تیار ہیں نہ ہی پی ٹی آئی کی طرف سے کوئی خاص پیشرفت نظر آتی ہے۔ مولانا فضل الرحمان اور جماعت اسلامی کبھی بھی پی ٹی آئی کی کشتی میں سوار نہیں ہونگی کیونکہ انھیں اچھی طرح معلوم ہے کہ ان کے حق میں نعرے لگانے والے یوتھیوں دشنام گوئی پر آتے ہوئے بالکل دیر نہیں لگاتے۔

Back to top button