جناح اسرائیل کا وجود تسلیم کرنے سے انکاری کیوں تھے؟

معروف اینکر پرسن اور صحافی حامد میر نے کہا ہے کہ حکومت پاکستان بے شک تقسیم فلسطین کو دو ریاستی حل قرار دیکر اسکی حمایت کرتی ہے لیکن محمد علی جناح کی طرف سے امریکی صدر ٹرو مین کے نام دسمبر 1947 میں لکھے گے خط میں اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا گیا تھا۔ انکا کہنا یے کہ ہم اس انکار کو جذباتیت قرار دیکر مسترد نہیں کر سکتے۔ حامد میر کے بقول جب تک مسجد اقصیٰ سے اسرائیل کا قبضہ ختم نہیں ہوتا اسرائیل کو تسلیم کرنا جناح کیساتھ غداری کے مترادف ہے۔
روزنامہ جنگ کے لیے اپنی تحریر میں حامد میر کہتے ہیں کہ یہ کہانی بہت لمبی اور پرانی ہے۔ اس کہانی میں غیروں کے دھوکے بھی ہیں اور اپنوں کی بے وفائیاں بھی۔ تاہم ایک ایسے شخص کا ذکر بھی آتا ہے جسے اہل فلسطین نے مشکل وقت میں بار بار پکارا اور وہ فلسطینیوں کیلئے برطانوی سامراج کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ اس شخص کا نام محمد علی جناح تھا جسے پاکستان میں قائد اعظم اور بابائے قوم کہا جاتا ہے۔ آج میں آپکو اس لمبی کہانی کا ایک ایسا واقعہ سنانا چاہتا ہوں جو پرانی کتابوں اور دستاویزات میں چُھپا دیا گیا اور پاکستان کی حکمران اشرافیہ نے کبھی اس کا ذکر نہیں کیا۔
یہ اُس دور کی بات ہے جب پہلی جنگ عظیم کے بعد خلافت عثمانیہ ختم ہو چکی تھی اور فلسطین پر برطانیہ نے قبضہ کر لیا تھا ۔ برطانیہ نے فلسطین پر اپنے ناجائز قبضے پر لیگ آف نیشنز سے نگران انتظامیہ کا ٹھپہ لگوا رکھا تھا۔ برطانیہ کی قابض فوج نے اپنے حقوق کیلئے آواز اُٹھانے والے فلسطینیوں کو سزائے موت دینے کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا۔ 3 فروری 1940 کو فلسطین کی سپریم عرب کمیٹی کی طرف سے مفتی اعظم فلسطین مفتی امین الحسینی نے قائداعظم محمد علی جناح کو ایک خط لکھا اور انہیں برطانوی انتظامیہ کی فوجی عدالتوں سے سزائے موت پانے والے بیس فلسطینیوں کے کوائف بھیجے۔ خط میں بتایا گیا کہ فوجی عدالتوں میں بہت سے دیگر فلسطینیوں کے مقدمات بھی زیر سماعت ہیں اور انہیں بھی سزائے موت دیئے جانیکا خدشہ ہے۔
مفتی امین الحسینی نے محمد علی جناح سے درخواست کی کہ فلسطینیوں کیساتھ ہونیوالی ناانصافی پر آواز بلند کی جائے۔ جناح نے یہ خط آل انڈیا مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کے سامنے رکھا جسکے بعد 24 فروری 194 کو جناح نے وائسرائے آف انڈیا لارڈ لین لتھگو کو ایک خط لکھا اور مطالبہ کیا کہ فلسطینیوں کیساتھ بات چیت کے ذریعے معاملات طے کئے جائیں، خط میں یہ مطالبہ کیا گیا کہ برطانوی فوج میں شامل ہندوستانی سپاہیوں کو کسی مسلم طاقت کے خلاف استعمال نہ کیا جائے۔ اسکے بعد 23 مارچ 1940 کو آل انڈیا مسلم لیگ کا لاہور میں سالانہ اجلاس ہوا جس میں مسلمانوں کیلئے ایک علیحدہ وطن کے قیام کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں کے حق میں بھی قرار داد منظور کی گئی۔
حامد میر کہتے ہیں کہ قیام پاکستان اور تحفظ فلسطین کی جدو جہد ساتھ ساتھ چل رہی تھی۔ 19اپریل 1940 کو وائسرائے لین لتھگو نے جناح کے نام خط میں انہیں یقین دلایا کہ ہندوستانی سپاہیوں کو کسی مسلم طاقت کے خلاف استعمال کرنیکا کوئی امکان نہیں لیکن انکے جواب میں فلسطین کا ذکر نہیں تھا ۔ 29مئی 1940 کو جناح نے وائسرائے کو ایک اور خط لکھا اور مفتی امین الحسینی کے خط کا حوالہ دیکر فلسطین میں فوجی عدالتوں کےذریعے ہونیوالی ناانصافی بند کرنیکا مطالبہ کیا ۔ وائسرائے لین لتھگو نے 27 جون 1940 کو جناح کے نام جواب میں مفتی امین الحسینی کے خلاف سخت زبان استعمال کی اور کہا کہ یہ شخص ہمیشہ سے فلسطین میں برطانوی انتظامیہ کا مخالف رہا ہے اور وہاں ہونیوالی دہشت گردی کا ذمہ دار ہے، اس نے لکھا کہ اُسکو فلسطین واپسی کی اجازت نہیں دی جائیگی۔
وائسرائے نے اپنے جواب میں جناح کو تاکید کی کہ اُنکا خط مفتی امین الحسینی کیساتھ شیئر نہ کیا جائے۔ یہ جناح کیلئے ایک اشارہ تھا کہ مفتی امین الحسینی برطانوی حکومت کیلئے انتہائی ناپسندیدہ شخصیت ہیں لیکن اسکے بعد بھی جناح نے مفتی امین الحسینی کے ساتھ اپنے تعلقات برقرار رکھے۔ دوسری جنگ عظیم میں مفتی امین الحسینی نے کھلم کھلا ہٹلر کی حمائت کی۔ برطانیہ نے انہیں دہشت گرد قرار دیدیا لیکن جناح فلسطین فنڈ کے ذریعہ اُنکی مدد کرتے رہے۔ 1937ء اور 1947ء کے دوران مفتی امین الحسینی کے جناح کے نام کئی خطوط موجود ہیں جن میں قائد سے درخواست کی گئی کہ 27رجب کو واقعہ معراج کا دن یوم فلسطین کے طور پر منایا جائے۔
محمد علی جناح نےمفتی امین الحسینی کے کہنے پر بار بار 27 رجب کو یوم فلسطین منایا۔ 27 رجب کوببطور یوم فلسطین منا کر قائد اور مسلم لیگ بار بار مسجد اقصی کیساتھ اپنی محبت کا اظہار کرتے رہے کیونکہ شب معراج کو نبی کریم حضرت محمد ﷺ کو خانہ کعبہ سے مسجد اقصیٰ لیجایا گیا تھا۔ پھر جب برطانیہ اور امریکا کی کوششوں سے اقوام متحدہ کے ذریعے تقسیم فلسطین کی قرارداد منظور ہوئی اور اسرائیل قائم کیا گیا تو جناح نے تقسیم فلسطین کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔
حامد میر کہتے ہیں کہ حکومت پاکستان بے شک تقسیم فلسطین کو دو ریاستی حل قرار دیکر اسکی حمایت کرتی ہے لیکن محمد علی جناح کی طرف سے امریکی صدر ٹرو مین کے نام دسمبر 1947 میں لکھے جانیوالے خط میں اسرائیل کے وجود سے انکار کو جذباتیت قرار دیکر مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ جب تک مسجد اقصیٰ سے اسرائیل کا قبضہ ختم نہیں ہوتا اسرائیل کو تسلیم کرنا قائداعظم کیساتھ غداری ہے۔وزیراعظم شہباز شریف ایک طرف تو ایسی آزاد فلسطینی ریاست کا مطالبہ کرتے ہیں جس کا دارالحکومت القدس شریف ہو، لیکن دوسری طرف موصوف یروشلم میں امریکی سفارتخانہ قائم کرنیوالے ٹرمپ کے غزہ امن پلان کی اندھا دھند حمایت کر رہے ہیں ۔ وزیر خارجہ اسحاق ڈار کا فرمانا ہے کہ جو لوگ ٹرمپ کے امن پلان کی مخالفت کر رہے ہیں وہ دراصل فلسطینیوں کے خون پر اپنی سیاست چمکا رہے ہیں۔ ڈار صاحب کو جذباتی باتیں نہیں کرنی چاہئیں بلکہ دلیل سے بات کرنی چاہئے۔ وہ ٹرمپ جو یروشلم سے امریکی سفارتخانہ واپس تل ابیب لیجانے کیلئے تیار نہیں وہ ایسی فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کیسے کرے گا جسکا دارالحکومت القدس شریف ہو؟
حامد میر کے بقول سب سے اہم بات یہ ہے کہ بہت سے امریکی مبصرین یہ سوال اُٹھا رہے ہیں کہ غزہ کے عوام کی اصل نمائندہ حماس ہے جب تک حماس اس ٹرمپ پلان کی حمائت نہیں کرتی تو اس پر عمل درآمد کیسے ہوگا ؟ فلسطینی اتھارٹی کا تعلق تو پی ایل او سے ہے۔ اگر پی ایل او ٹرمپ پلان کی حمائت اور حماس مخالفت کرئیگی تو اسکا مطلب یہ ہے کہ ٹرمپ پلان سے فلسطینیوں کو تقسیم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ میری اطلاع یہ ہے کہ نیتن یاہو فی الحال تو آزاد فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں لیکن کچھ دن بعد وہ کہیں گے کہ اگر کچھ اہم مسلم ممالک اسرائیل کو تسلیم کرلیں تو وہ بھی ایک فلسطینی ریاست کو تسلیم کرلینگے لیکن وہ مسجد اقصیٰ کا قبضہ نہیں چھوڑیں گے ۔ وہ صاحبانِ دانش جو ٹرمپ کے غزہ پلان کو مسئلہ فلسطین کے حل کی طرف اہم قدم قراردے رہے وہ یہ بتا دیں کہ جب تک مسجد اقصیٰ سے اسرائیل کا ناجائز قبضہ ختم نہیں ہوتا مسئلہ فلسطین کیسے حل ہو سکتا ہے؟ حماس کو غیر مسلح کرنے یا حماس کو ختم کر دینے سے مشرق وسطیٰ میں امن قائم نہیں ہو گا ۔ 1947ء میں مغربی طاقتوں نے مفتی امین الحسینی کو دہشت گرد قرار دیکر فلسطین بدر کر دیا۔ اُن کا انتقال بیروت میں ہوا۔ انہیں غزہ میں دفن بھی نہ کرنے دیا گیا۔ کیا وہاں امن قائم ہوا ؟ مفتی امین الحسینی کی شروع کردہ مزاحمت کا نیا نام حماس ہے جسے اسرائیل اور امریکا دہشت گرد کہتے اس کو فلسطین سے کیسے مائنس کیا جا سکتا ہے؟
حامد میر کہتے ہیں کہ جب تک مسجد اقصیٰ سے اسرائیل کا قبضہ ختم نہیں ہوتا حماس ختم نہیں ہو سکتی۔ اسرائیل فلسطینیوں کی موجودہ نسل کو تو ختم کر سکتا ہے لیکن اُنکی اگلی نسل پھر مزاحمت شروع کر دے گی۔ مسئلہ فلسطین کاحل ٹرمپ یا ٹونی بلیئر کے پاس نہیں۔ مسئلہ فلسطین کا حل مسجد اقصٰی کی آزادی میں ہے۔ اگر ہم مسجد اقصیٰ سے اسرائیل کا قبضہ ختم نہیں کرا سکتے تو کم از کم ہمیں اس مشکل وقت میں اہل غزہ اور محمد علی جناح کے نظریے کیساتھ بے وفائی تو نہیں کرنی چاہئے۔
