عمران کی تحریک انصاف کے ورکرز مایوسی کا شکار کیوں ہونے لگے؟

سینئیر صحافی اور تجزیہ کار سہیل ورائچ نے کہا یے کہ ملک کی سب سے پاپولر جماعت ہونے کے باوجود اِس وقت تحریکِ انصاف میں کوئی تنظیم سازی نہیں اور نہ ہی اس پر کوئی توجہ دی جا رہی یے۔ لہازا عمران خان کی جماعت واضح طور پر آپسی گروہ بندی کا شکار ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ عمران کے ورکرز مایوس ہو رہے ہیں اور انکی سٹریٹ پاور تیزی سے کم ہو رہی یے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ تنظیم سازی نہ ہونے کے سبب عمران خان کی نہ تو پارٹی پر گرفت ہے اور نہ کارکنوں پر، جس کے سبب پی ٹی آئی بطور جماعت جب بھی کسی احتجاج یا جلسے کا اعلان کرتی ہے تو کوئی بھی اُسے سنجیدہ نہیں لیتا۔
سہیل وڑائچ نے کہا کہ پی ٹی آئی کی یہ صورتِ حال صرف پاکستان کے اندر ہی نہیں بلکہ ملک سے باہر بھی ایسے ہی ہے۔ عمران خان کے ساتھی 9 مئی کے بعد سے شروع ہونے والی لمبی جنگ لڑتے ہوئے اب سیاسی اعتبار سے تھک چُکے ہیں اور مایوسی کا شکار ہونے لگے ہیں۔
دوسری جانب تجزیہ کار مجیب الرحمان شامی کی رائے میں عمران خان کی بات کی شنوائی ہو یا نہ ہو لیکن وہ اپنا مقدمہ لوگوں کے سامنے پیش کر رہے ہیں اور رائے عامہ کو اپنے نقطہ نظر سے آگاہ کر رہے ہیں۔ اُن کے ساتھ جو زیادتیاں ہو رہی ہیں وہ بتا رہے ہیں اور الزامات بھی لگا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان اپنا اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ عوام تک پہنچانے میں 100 فیصد کامیاب رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے آرمی چیف کے نام جو تین خطوط لکھے ہیں ان کا بنیادی مقصد بھی فوجی اسٹیبلشمنٹ کو ٹارگٹ کرنا اور عوام تک اپنا پیغام پہنچانا تھا، اب یہ حکومت اور فوج کا کام ہے کہ وہ عمران کے الزامات کا جواب دیں۔
تجزیہ کار سلیم بخاری سمجھتے ہیں کہ عمران خان کے پاس ایک ہی آپشن ہے کہ وہ سیاسی جدوجہد کا راستے اختیار کریں۔ پارلیمنٹ میں اپنا دباؤ بڑھائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ میں عمران کی جماعت کے اراکین کافی بڑی تعداد میں موجود ہیں لیکن وہ اِس قوت کو جمہوری انداز میں استعمال نہیں کر پا رہے جس کی وجہ شاید یہ ہے کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ راستہ اختیار کرنے سے نتائج جلد سامنے نہیں آئیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ ماضی میں بھی عمران خان نے ریاست پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی جسکا نتیجہ 9 مئی کے واقعات کی صورت میں سامنے اور اس کے نتائج تحریک انصاف آج دن تک بھگت رہی ہے۔ سلیم بخاری کی رائے میں عمران کو نئے انتخابات کے لیے نئے سیاسی محاذ بنانے چاہئیں اور اُن سیاسی محاذوں کی لگامیں کھینچنے کے بجائے اُن پر اعتماد کریں۔
تجزیہ کار سلمان غنی بھی ہہی سمجھتے ہیں کہ سیاسی قوتوں کے پاس ایک ہی راستہ ہوتا ہے اور وہ سیاسی قوتوں کو ساتھ ملانے کا ہے۔ انکے مطانق سیاسی قوتوں کے پاس کوئی فوج نہیں ہوتی، اِن کے پاس سیاسی قوت ہوتی ہے اور سیاسی قوتیں سیاسی راستے نکال کر ہی آگے کی طرف جاتی ہیں۔ لیکن خان صاحب کا ماضی بتاتا ہے کہ وہ سولو فلائیٹ چاہتے ہیں۔ وہ دیگر سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر حکومت پر دباؤ بڑھانے پر یقین نہیں رکھتے اور اسی وجہ سے وہ ابھی تک حکومت کے خلاف کوئی موثر تحریک چلانے میں کامیاب نہیں ہوئے۔
تجزیہ کار سہیل وڑائچ بھی سمجھتے ہیں کہ عمران خان کو سیاسی ذہن کے ساتھ سیاسی اقدامات لینے چاہئیں لیکن وہ نہیں لے رہے۔ انہیں چاہیئے تھا کہ انکی جماعت کو حکومت سے مذاکرات کے دوران جتنی گنجائش ملتی اُس سے فائدہ اُٹھاتے اور آگے بڑھتے۔ تاہم انہوں نے غیر سیاسی اپروچ اپنائی اور جارحانہ پالیسی اپناتے ہوئے مذاکرات کا دروازہ ہی بند کر دیا۔ اُنہوں نے کہا کہ سیاسی اتحاد بنانے میں عمران خان نے بہت دیر کر دی اور اَب جو سیاسی اتحاد بنا ہے اس کی اتنی سیاسی اہمیت نہیں کہ حکومت دباؤ میں آئے۔
سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ پوری دنیا میں اہوزیشن کے آگے بڑھنے کا ایک ہی طریقہ ہوتا ہے اور وہ ہے صبر، اور صبر کے ساتھ منصوبہ بندی کی جائے۔ دنیا بھر میں اپوزیشن کی سیاست کرنے والے سیاست دانوں کو جتنی جگہ ملتی ہے وہ اسے حاصل کرتے ہیں اور آہستہ آہستہ آگے بڑھتے ہیں۔ لیکن عمران خان کی پالیسی عجیب ہے، وہ ایک ہی جھٹکے میں سب کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں جو کہ نا ممکن ہے۔
سہیل وڑائچ کے بقول، پاکستانی سیاست میں آگے بڑھنے کے لیے فوج کے ساتھ بار بار سمجھوتے کرنے پڑتے ہیں۔ پاکستان کوئی مثالی جمہوری ملک نہیں ہے جہاں جو جیتے گا وہی آ جائے گا۔ یہاں ایک ہائیبرڈ سسٹم ہے۔ یہاں فوجی اسٹیشلشمنٹ اور سٹیک ہولڈرز کو جگہ دینی پڑتی ہے، ورنہ آپ کہ اپنی سیاسی سپیس بھی ختم ہو جاتی یے۔