پاکستان میں اب کوئی وکلا تحریک چلنے کا امکان کیوں باقی نہیں بچا؟

معروف صحافی اور تجزیہ کار نصرت جاوید نے کہا ہے کہ سال 2007 کی طرح پاکستانی وکلا کی جانب سے عدلیہ کے ازادی کے لیے ایک اور تحریک چلانے کا امکان خود سابق چیف جسٹس آف پاکستان افتخار چوہدری نے اپنے سیاستدان دشمن کردار کے ذریعے ختم کر دیا تھا، لہذا اب اییسی کسی تحریک چلنے کی امید رکھنا فضول ہے۔ نصرت یاد دلاتے ہیں کہ افتخار چوہدری کو جنرل مشرف نے برطرف کر دیا تھا لیکن وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے انہیں بحال کیا تھا۔ تاہم افتخار چوہدری نے اسی وزیراعظم کو ناہل کر دیا جس نے مشرف کے ہاتھوں برطرف ہونے والے اعلی عدلیہ کے ججز کو بحال کیا تھا۔
نصرت جاوید اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں کہتے ہیں کہ میرے کئی ساتھی یہ امید باندھے ہوئے تھے کہ اگلے روز جوڈیشل کمیشن کے ہونے والے اجلاس میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کی وجہ سے یا تو بازی پلٹ جائے گی اور یا ایک نئی وکلا تحریک شروع ہو جائے گی اور یوں حکومت اپنی مرضی کے ججز سپریم کورٹ میں تعینات کرنے میں کامیاب نہیں ہوگی۔ لیکن ایسا نہیں ہو پایا۔ حکومت نے اپنی مرضی کے ججز بھی تعینات کر لیے اور کوئی وکلا تحریک بھی نہیں چلی۔
نصرت یاد دلاتے ہیں کہ اپریل 2007ء میں تب کے فوجی صدر مشرف نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو اپنے ہاں طلب کرلیا تھا۔ موصوف کو خفیہ ایجنسیوں کے سربراہان کی موجودگی میں چند فائلیں دکھاکر استعفیٰ دینے کا مشورہ دیا گیا۔ لیکن افتخار چودھری نے انکار کر دیا۔ اس کے بعد جو ہوا وہ تاریخ ہے۔
افتخار چودھری کی چیف جسٹس کے منصب پر بحالی کے لئے جو تحریک چلی اس نے کئی صحافیوں کو حق گوئی کی علامتیں بنادیا۔ مجھے بھی اس تحریک کی حمایت کے گناہ میں ٹی وی سکرینوں کے لئے کئی مہینوں تک زبردستی ’’آف‘‘ کردیا گیا تھا۔ ایک ٹاک شو کا اینکر محض گفتارکا غازی ہونے کی وجہ سے ’’ہیرو‘‘ بن گیا۔ ’’ہیرو‘‘ کو ’’زیرو‘‘ بننے کے لئے تحریک انصاف کے احیاء کا انتظارکرنا پڑا۔ سرکار مائی باپ کی ڈیپ سٹیٹ کی سرپرستی میں اکتوبر 2011ء کے دن لاہور کے مینارِ پاکستان تلے ایک جلسہ ہوا۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کسی سیاسی جلسے کو ایونٹ کی صورت پیش کیا گیا۔ عمران خان کی اس جلسے کے سٹیج پر ’’انٹری‘‘ فن ڈرامہ کے تقاضوں کے عین مطابق ہوئی۔ جس انداز میں وہ جلسہ ہوا اس نے تاریخ کے اس ناچیز طالب علم کو یہ سوچنے کو مجبور کیا کہ پاکستان میں ’’عوامی مقبولیت‘‘ سے مالا مال ایک سیاست دان ’’تیار‘‘ کیا جارہا ہے۔ عمران کو ’’اقتدار میں باریاں لینے والے چوروں اور لٹیروں‘‘ کے مقابلے میں ڈٹ کر کھڑا ایک دیانتدار آدمی بنا کر پیش کیا گیا۔
نصرت جاوید کہتے ہیں کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کی امیج بلڈنگ کرتے ہوئے اسے ایک کرشمہ ساز کرکٹر اور ایک رحمدل انسان بنا کر پیش کیا جس نے گلی گلی جاکر جھولی پھیلائی اور اپنی ماں کی یاد میں لاہور میں کینسر کے موذی مرض کے علاج کے لئے ایک جدید ترین ہسپتال قائم کیا۔ سرکار مائی باپ کی ڈیپ سٹیٹ میں بیٹھے ’’تخلیق کاروں‘‘ نے فیصلہ کیا کہ شوکت خانم ہسپتال کی تعمیر کرنے والا اب سیاست میں کرپشن کے نام سے معروف کینسر کے خاتمے کیلئے بھرپور تیاری کیساتھ میدان میں اترے۔
نصرت جاوید کہتے ہیں کہ میں عمران خان کو تخلیق کرنے والے ’’دیدہ وروں‘‘ کے بارے میں ہمیشہ شک وشبے میں مبتلا رہا ہوں۔ چنانچہ میں نہایت دیانتداری سے عمران خان کی بطور سیاستدان نئے برانڈ کے ساتھ لانچنگ پر سوال اٹھانا شروع ہو گیا۔ میرے اٹھائے سوالات کے جواب تو نہ ملے۔ لیخن ایک دن سوشل میڈیا پر ایک مشہور تعمیراتی ادارے کے سرکاری لیٹر پیڈ پر چھپی ایک فہرست وائرل ہوگئی۔ اس فہرست میں ان صحافیوں کے نام شامل تھے جنہیں اد ادارے نے خطیر رقوم بینکوں کے ذریعے فراہم کیں۔ اس کے علاوہ اپنی جانب سے آباد کی بستیوں میں قیمتی پلاٹ بھی الاٹ کئے۔
کسی نہ کسی وجہ سے مشہور ہوئے افراد کی کردار کشی سے لطف اٹھانے کے عادی افراد میں سے کسی ایک نے بھی یہ سوچنے کی زحمت ہی نہ اٹھائی کہ سیٹھ لوگ صحافیوں کو خریدنے کے لئے ان کے بینک اکائونٹس میں لاکھوں روپے جمع نہیں کرواتے۔ لیکن حقائق پر توجہ دینے کی ہمیں عادت نہیں۔ اس حرکت کا۔مقصد چند ’’ہیرو‘‘ بنے ہوئے صحافیوں کو ’’زیرو‘‘ بنانا تھا اور یہ ہدف سوشل میڈیا کے ذریعے حاصل کرلیا گیا۔
نصرت جاوید کہتے ہیں کہ سرکار مائی باپ نے حال ہی میں سوشل میڈیا کے ذریعے ’’فیک نیوز‘‘ کے پھیلائو کو روکنے کے لئے پیکا ایکٹ لاگو کیا ہے۔ 2025ء کے برس وہ گھونسہ یاد آیا ہے جو سرکار مائی باپ کو اس وقت استعمال کرنا چاہیے تھا جب اس کی ڈیپ سٹیٹ میں بیٹھے ’’دیدہ ور‘‘ کے تخلیق کار اپنے راج دلارے کے ناقدوں کی کردار کشی میں مصروف تھے۔ ’’ڈیپ سٹیٹ‘‘ کے علاوہ صحافیوں کی اکثریت بھی ’’ہیرو‘‘ بنے ساتھیوں کے ’’زیرو‘‘ ہونے سے دل ہی دل میں بہت خوش ہوئی۔ اس بات کا اندازہ ہی نہ لگا پائی کہ ’’سیلاب بلا‘‘ کا رْخ اب ان کی جانب ہونا ہے۔ 2014ء سے وہ سیلاب نمودار ہونا شروع ہوگیا۔ اس کے بعد نت نئے چینل مارکیٹ میں آئے اور ان پر رونق لگانے کیلئے ’’نئے چہرے‘‘ جو پانچویں پشت کی ابلاغی جنگ لڑنے کے لئے بھی تربیت یافتہ تھے۔ سرکار مائی باپ کے وسائل سے اد جنگ کے لئے تیار ہوئے ’’غازیوں‘‘ کی اکثریت اب بیرون ملک بیٹھی ریاست پاکستان کے لتے لیتے ہوئے خوش وخرم زندگی گزاررہی ہے اور پاکستان میں صحافت کی قبر مٹی میں ملنے والی ہے۔ ایسے عالم میں یہ امید باندھنا کہ جوڈیشل کونسل کے حالیہ اجلاس سے قبل چند وکلاء سپریم کورٹ کے دروازے تک پہنچ کر 2007ء جیسی ’’عدلیہ آزادی‘‘ کی تحریک کا شروع کر پائیں گے، سرارس خام خیالی تھی۔ 2007ء میں جو تحریک چلی اس کا انجام جنرل مشرف کی جانب سے ایمرجنسی-پلس کے نام سے لگائے ایک اور مارشل لاء کی صورت ہوا۔ ’’آزاد منش ججوں‘‘ کی اکثریت اس کے بعد اسلام آباد کے ججز کالونی میں موجود گھروں میں نظر بند کردی گئی۔ ان کی قیام گاہوں کی جانب جاتی سڑکوں پر خاردار تاریں نصب ہوگئیں۔ خلق خدا کی اکثریت ججوں کی نظر بندی بھول کر نئے انتخاب کا تماشہ دیکھتی رہی۔
نصرت جاوید کہتے ہیں کہ ٹی وی سکرینوں سے بین ہو کر مجھ جیسے ’’ہیرو‘‘ بنے صحافی بھی بھلا دئے گئے۔ ججوں کی نظر بندی اور چند صحافیوں کا ٹی وی سکرینوں سے غائب ہوجانا خلق خدا کی اکثریت کو اس وقت یاد آیا جب ایک سیاستدان یوسف رضا گیلانی نے وزیر اعظم منتخب ہوکر نظر بند ججوں کی قیام گاہوں کے باہر لگی خاردار تاریں ہٹانے کا حکم دیا۔ صحافیوں کی ٹی وی سکرینوں سے عدم موجودگی کا ذکر آصف علی زرداری نے ٹی وی کو دئے ایک انٹرویو میں کیا۔ لیخن افتخار چودھری نے چیف جسٹس کے منصب پر بحال ہو کر منتخب سیاستدانوں کے ساتھ کیا کیا؟ آپ کو یاد نہیں رہا تو عرض کر دیتا ہوں کہ ہر دوسرے روز ان میں سے کئی جعلی ڈگری کے الزام میں ازخود نوٹس کے ذریعے طلب کئے جاتے تھے۔ عدلیہ افتخار چودھری کے ذریعے ’’آزاد‘‘ نہیں بلکہ ریاست کا طاقتور ترین ستون بننے کی دھن میں مصروف ہوگئی۔ نوبت بہ آئی کہ مشرف کے ہاتھوں برطرف ہونے والے ججز کو بحال کرنے والے منتخب وزیر اعظم یوسف رضا گیکانی کو حکم ملا کہ وہ ایک منتخب صدر آصف زرداری کے خلاف ایک غیر ملک کو خط لکھے اور پتہ چلائے کہ موصوف نے وہاں موجود بینکوں میں کتنی رقم جمع کروارکھی ہے۔ گیلانی صاحب نے صدر کو حاصل استثناء کا حوالہ دیتے ہعئے وہ خط لکھنے سے انکار کیا تو توہین عدالت کا مرتکب ٹھہرا کر ننااہل قرار دے دیے گئے۔
نصرت جاوید کہتے ہیں کیا افتخار چودھری نے جو نظیر قائم کی ثاقب نثار نے اسے نواز شریف کے خلاف انتہا تک پہنچایا۔ ’’جھوٹا اور خائن‘‘ ٹھہراکر گھر بھیج دیا۔ حالیہ تاریخ کے ایسے واقعات کے بعد کوئی سادہ لوح ہی یہ فرض کر سکتا ہے کہ کوئی سیاستدان یا جماعت خلوص دل سے ’’آزاد عدلیہ‘‘ دیکھنے کی متمنی ہے۔ وکلاء تحریک کے امکانات افتخار چودھری اور ثاقب نثار جیسے کردار اپنے ہاتھوں تباہ کرچکے ہیں۔