پاکستان اور انڈیا کے مابین دوبارہ جنگ کا خطرہ ختم کیوں ہو گیا؟

اسلام آباد میں باخبر سفارتی ذرائع نے دعوی کیا ہے کہ صدر ٹرمپ کی جانب سے پاکستان اور بھارت کے مابین سیز فائر کروائے جانے کے بعد اب نہ تو خطے میں کسی جنگ کا خطرہ ہے اور نہ ہی کسی نیوکلیئر جنگ کا۔
پاکستان اور انڈیا کے درمیان حالیہ کشیدگی میں کوئی الٹی میٹم نہیں تھا اور نہ ہی کوئی دھمکیاں لیکن پھر بھی دونوں ممالک کے درمیان عسکری جوابی کارروائیوں، خفیہ اشاروں اور تیز بین الاقوامی ثالثی نے خطے کے خطرناک ترین سائے کو جنم دیا۔ اگرچہ یہ بحران جوہری جنگ کی طرف نہیں بڑھا لیکن یہ اس بات کی یاد دہانی تھی کہ یہ کشیدگی کتنی جلدی اس جانب بڑھ سکتی ہے۔ یہاں تک کہ سائنسدانوں نے بھی ایک ماڈل بنایا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان صورتحال کتنی تیزی سے بگڑ سکتی ہے۔ 2019 میں سائنسدانوں کے ایک گروہ نے ایک خوفناک مفروضے پر تحقیق کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان ایٹمی جنگ کیسے شروع ہو سکتی ہے؟ اس ماڈل میں یہ مفروضہ اپنایا گیا کہ 2025 میں انڈیا کی پارلیمنٹ پر عسکریت پسندوں کے حملے کے بعد پاکستان اور انڈیا میں ایٹمی جنگ کا آغاز ہو گا۔ چھ سال بعد حقیقی دنیا میں دونوں کے درمیان محدود جنگ چھڑنے سے اس تنازعے کے پھیلنے اور ایک بڑی جنگ میں بدلنے کے خطرات منڈلانے لگے تھے۔ اگرچہ امریکہ نے ثالثی کر کے دونوں کے مابین سیز فائر کروا دیا مگر اس تنازعے نے ایک بار پھر سب کو یاد کروا دیا کہ خطے میں استحکام کتنا نازک ہو سکتا ہے۔
جیسے ہی حالیہ پاک بھارت جنگ شروع ہوئی، پاکستان نے ’دوہرے اشارے‘ بھیجے، ایک جانب اس نے عسکری جوابی کارروائی کی اور دوسری جانب نیشنل کمانڈ اٹھارٹی کا اجلاس بلانے کا کہا، جو اس کے ایٹمی طاقت ہونے کی یاد دہانی تھی۔ نیشنل کمانڈ اتھارٹی ملک کے ایٹمی ہتھیاروں کے کنٹرول اور ممکنہ استعمال کے اختیارات کے معاملات کی نگرانی کرتا ہے۔ آیا یہ اقدام علامتی تھا، سٹریٹجک تھا یا حقیقی انتباہ، ہم شاید کبھی نہیں جان پائیں گے لیکن یہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا جب امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے مبینہ طور پر اس بحران کو ختم کرنے کے لیے دونوں ممالک کے ساتھ بات چیت شروع کی ہی تھی۔
صدر ٹرمپ نے پاکستان اور انڈیا کے درمیان جاری بحران کو ختم کروانے کے بعد کہا کہ امریکہ نے صرف سیز فائر ہی نہیں کروایا بلکہ اس نے ایک ’ایٹمی لڑائی‘ کو روکوایا۔ پیر کو انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا ’ایٹمی حملے کے حوالے سے بلیک میل نہیں ہوں گے، انڈیا ایٹمی حملوں کی دھمکیوں سے نہیں ڈرے گا۔‘ مودی نے مزید کہا کہ ’اس کی آڑ میں کام کرنے والی دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کو فیصلہ کن حملوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘
معروف تھنک ٹینک سیپری کے مطابق، انڈیا اور پاکستان دونوں کے پاس تقریباً 170، 170 جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ سیپری کے جنوری 2024 تک کے ایک تخمینے کے مطابق دنیا بھر میں 12,121 جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ ان میں سے تقریباً 9,585 عسکری ذخیروں میں رکھے گئے ہیں، جن میں سے 3,904 فعال طور پر تعینات تھے اور یہ 2023 کے مقابلے میں 60 زیادہ ہیں۔ امریکہ اور روس کے پاس 8000 سے زیادہ جوہری ہتھیار ہیں۔ دفاعی ماہرین کے مطابق انڈیا اور پاکستان دونوں کے تعینات کردہ نیوکلئیر ہتھیاروں کا بڑا حصہ ان کی زمین پر مبنی میزائل فورسز میں ہے، حالانکہ دونوں ہی ایسے ایٹمی ہتھیار تیار کر رہے ہیں جو زمین، ہوا اور سمندر سے مار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔
1998 میں جوہری ہتھیاروں کے تجربے کے بعد سے پاکستان نے کبھی بھی باضابطہ طور پر جوہری نظریے کا اعلان نہیں کیا۔ اس کے برعکس انڈیا نے اپنے 1998 کے تجربوں کے بعد انھیں پہلے استعمال نہ کرنے کی پالیسی اپنائی لیکن ان کے اس موقف میں نرمی کے آثار نظر آ رہے ہیں۔ 2003 میں انڈیا نے کسی بھی بیرونی کیمیکل یا بائیولوجیکل حملوں کے جواب میں جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا حق محفوظ رکھا جو اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ کسی خاص صورتحال میں وہ انھیں استعمال کرنے میں پہل کر سکتا ہے۔ اس متعلق مزید ابہام 2016 میں تب پیدا ہوا جب انڈیا کے تب کے وزیر دفاع منوہر پاریکر نے تجویز دیتے ہوئے کہا کہ انڈیا کو اپنی اس پالیسی کا ’پابند‘ نہیں ہونا چاہیے جو بیرونی دنیا میں اس کی طویل مدتی ساکھ پر سوال اٹھاتی ہے۔
دفاعی ماہرین کے مطابق پاکستان کی جانب سے جوہری ہتھیاروں کے استعمال سے متعلق باضابطہ نظریے کی عدم موجودگی کا مطلب یہ نہیں کہ پاکستان کے پاس کچھ نہیں۔ سرکاری بیانات، انٹرویوز اور جوہری ترقی سے متعلق خبریں اکثر اس کے استعمال اور موقف سے متعلق واضح اشارے دیتی ہیں۔پاکستانی افواج کی جانب سے کن صورتوں میں جوہری ہتھیار استعمال کیے جا سکتے ہیں، اس بارے میں اب بھی ابہام ہے، تاہم 2001 میں اس وقت کے نیشنل کمانڈ اتھارٹی کے سٹرٹیجک پلان ڈویژن کے سربراہ خالد قدوائی نے اس متعلق چار سرخ لکیریں کھینچی تھیں۔ جن میں دشمن ملک کی جانب سے پاکستان کے بڑے رقبے کا نقصان ہونا، اہم عسکری تنصیبات کی تباہی، معاشی طور پر گلا گھونٹنا یا ملک میں سیاسی عدم استحکام پھیلانا شامل ہے۔
2002 میں پرویز مشرف نے واضح کیا تھا کہ ’جوہری ہتھیاروں کا مقصد صرف اور صرف انڈیا ہے‘ اور انھیں صرف اس صورت میں استعمال کیا جائے گا جب ’ایک ریاست کے طور پر پاکستان کا وجود‘ خطرے میں ہو۔
تاہم اب اسلام آباد میں موجود باخبر سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کی جانب سے بھارت اور پاکستان کے مابین جنگ بندی معاہدہ کروائے جانے کے بعد ایسا کوئی امکان نہیں کہ دونوں میں سے کوئی بھی ملک اس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دوبارہ جنگ کا آغاز کرے اور صورتحال کو جوہری جنگ کی جانب لے جائے۔