اس بار دنیا پاکستان مخالف انڈین بیانیہ خریدنے کو تیار کیوں نہیں؟

معروف لکھاری اور تجزیہ کار سینٹر عرفان صدیقی نے پہلگام کے خونیں حملے کو مودی سرکار کا اپنا گھڑا ہوا ڈرامہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ جب بھی امریکہ کا کوئی بڑا عہدیدار بھارت کے دورے پہ آتا ہے، انڈیا پاکستان پر الزام دھرنے کیلئے آگ اور بارود کا ایسا تماشا ضرور رچاتا ہے۔ 2000 میں صدر کلنٹن بھارت کے دورے پر آئے تو ایسا ہی ایک ڈرامہ رچاتے ہوئے 40 سکھوں کے لہو کا نذرانہ پیش کیا گیا۔ اب امریکی نائب صدر انڈیا کے دورے پر پہنچے تو دو درجن سے زائد سیاحوں کے سر طشتری میں سجا کر بطور نذرانہ پیش کیے گئے اور الزام پاکستان کے سر دھر دیا گیا۔ یوں مودی سرکار کی جانب سے امریکیوں کی میزبانی کا حق تو ادا ہوگیا لیکن اس بار دنیا بھر میں پاکستان مخالف بھارتی بیانیے کا خریدار کوئی نہیں۔ یہ صورتِ حال مُودی کا بلڈ پریشر بڑھا رہی ہے اور وہ اثرات ونتائج سے بے نیاز ہو کر پاکستان پر حملے کا احمقانہ قدم اٹھا سکتا ہے۔یہ الگ بات کہ اُسے جواب میں وہی کچھ ملے گا جو ایسے احمقانہ قدم کے ردّعمل میں ملا کرتا ہے۔
روزنامہ جنگ کے لیے اپنی تازہ تحریر میں عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ کبھی پنڈت جواہر لعل نہرو کا بھارت، سیکولرازم کو اپنے سَر کی کَلغی قرار دینے میں فخر محسوس کرتا تھا۔ بھارت دُنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا تمغہ سینے پر سجائے پھرتا تھا۔ لیکن نریندر مُودی نے گلی محلے کے اوباش لفنگے کی طرح بھارت کے چہرے کا یہ نقاب بھی تارتار کر دیا ۔ یاد ریے کہ 2002 کی مُسلم کُش مہم کی باقاعدہ منصوبہ بندی کرتے ہوئے مودی نے نے انتہا پسند ہندووں کے جتھے تیار کئے اور ہھر تین ہزار مسلمان قتل کر دئیے گئے۔ چنانچہ مسٹر مُودی کو ’’گجرات کے قصاب‘‘ کا خطاب دیا گیا۔ آج اُس کی بلائیں لینے والے امریکہ نے تب مودی نامی قصائی کو ویزا دینے سے انکارکردیا تھا۔
عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ مُودی نے اِس قتل وغارت گری کو اپنی سیاسی حکمتِ عملی کا بنیادی نکتہ بنا لیا۔ اُس نے جان لیا کہ سیاست میں آگے بڑھنے، کانگریس کو پیچھے دھکیلنے، مذہب کے نام پر سستی جذباتیت اُبھارنے اور نفرت کی دراڑیں ڈالنے سے ہی وہ وزارت عظمیٰ کے منصب تک پہنچ سکتا ہے۔ سو اُس نے یہی راستہ اختیار کیا اور کامیاب اور کامران ٹھہرا۔ آج مُودی کا بھارت اقلیتوں، بالخصوص مسلمانوں کی قتل گاہ بن چکا ہے۔ بائیس کروڑ مسلم آبادی خوف وہراس کے عالم میں شب وروز گزار رہی ہے جس کی جوان نسل کیلئے، کسی بھی شعبۂِ زندگی میں ہنرآزمانے کے تمام راستے بند ہیں۔ مُودی بڑی محنت اور لگن کیساتھ نفرتوں کی فصل پروان چڑھا رہا ہے۔
عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ مُودی کی سیاسی حکمتِ عملی کا دوسرا اہم جزو پاکستان دُشمنی ہے۔ وقفے وقفے سے پاکستان پر وار کرنا، بے سروپا الزام عائد کرنا، جھوٹ پر مبنی داستانیں گھڑ کر دنیا کو گمراہ کرنا، پاکستان کے اندر دہشت گردی کرنے والے ملک دشمن عناصر کو ہر نوع کے وسائل فراہم کرنا، خوارج اور انتشاری قوتوں کی پرورش ونمو، اسکی بڑی ترجیحات بن چکی ہیں۔ یہی اُسکی سیاسی کامیابی کی کلید ہے جس کے ذریعے وہ گیارہ برس سے ’پردھان منتری‘ کی کرسی پر بیٹھا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی صورتِ حال، غزہ سے کم سنگین نہیں۔ گزشتہ تین دہائیوں میں 90 ہزار سے زائد کشمیری شہید ہوچکے ہیں۔ پچیس ہزار خواتین بیوگی کی سیاہ چادریں اوڑھے بیٹھی ہیں۔ دس ہزار سے زائد دُخترانِ کشمیر کی عصمتیں لٹ چکی ہیں۔ ہزاروں جیلوں میں گَل سڑ رہے ہیں۔ اُن کی عبادت گاہیں محفوظ ہیں نہ کاروبار، گھر نہ جائیدادیں۔
سال 2019ء میں بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 پر بھی کلہاڑا چلا دیا گیا جو مقبوضہ جموں وکشمیر کو خصوصی تحفظات دیتا تھا۔ اب وہاں تیزی سے اکثریت کو اقلیت میں بدلا جا رہا ہے۔ زور زبردستی سے بھارت میں ضم کردیا جانے والا خطۂِ جنت نظیر، آہستہ آہستہ تحلیل ہوکر نفرتوں کی چتا کا رزق بن رہا ہے۔ ماضی کی متعدد دہشت گردانہ وارداتوں کی طرح، پہلگامنکا حملہ بھی ہر پہلو سے بھارتی خفیہ ایجنسی کا تیار کردہ منصوبہ تھا۔ سات لاکھ سے زائد بھارتی فوج، بستی بستی، گلی گلی مورچے سنبھالے بیٹھی ہے۔ قدم قدم پر چوکیاں ہیں۔ ہر آٹھ کشمیریوں پر ایک بندوق بردار کھڑا ہے۔ ایسے میں اہم ترین سوال یہ ہے کہ پہلگام حملے کے ووت بھارتی فوج اور اُس کی ایجنسیاں کہاں تھیں؟ غیرملکی یا مُلکی سیاحوں کو بھیڑ بکریوں کے لاوارث گَلّے کی طرح کیوں چھوڑ دیاگیا؟
عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ بھارتی کہانی کے مطابق صرف چار دہشت گردوں کو اتنا وقت کیسے ملا کہ وہ سرِبازار، ایک ایک سیاح کا انٹرویو لیتے، شناخت کرتے اور بصد اطمینان اُن کے سینوں میں گولیاں داغتے رہیں؟ ابھی کسی زخمی کو ہسپتال بھی نہیں پہنچایا گیا تھا کہ دس منٹ کے اندر اندر پاکستان کے خلاف ایف۔آئی۔آر کٹ گئی اور اُسے کٹہرے میں کھڑا کردیاگیا۔ کشمیر کو تقسیم کرنے والی 740 کلو میٹر طویل لائن آف کنٹرو ل پر بلند قامت فولادی باڑ لگی ہے۔ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر، تیز روشنی میں چار سُو نگاہ رکھنے والی چوکیاں ہیں۔ اس باڑ سے پہلگام کا فاصلہ دو سو کلومیٹر سے زائد ہے۔ ایسے میں ’’پاکستانی دہشت گرد‘‘ کون سی طلسماتی اڑن طشتری میں بیٹھ کر آئے اور دو درجن سے زائد سیاحوں کو ہلاک کر کے سہولت کے ساتھ واپس چلے گئے؟ اگر آس پاس کوئی جنگل بھی ہے تو کس قدر گھنا ہے کہ دہشت گرد وہاں خیمے گاڑے بیٹھے رہے، تربیت لی، منصوبہ تیار کیا، ریہرسل کی اور پھر ہتھیاروں سے مسلح ہوکر سیاحت گاہ میں آئے اور بہ سہولت واردات کرکے ٹہلتے ہوئے جنگل میں واپس چلے گئے۔ بار بار تقاضا کرنے کے باوجود بھارت ایک بھی ثبوت سامنے نہیں لاسکا جو اِس حملے کا تعلق پاکستان سے جوڑتا ہو۔ پھر بھی بھارتی توپوں کا رُخ مسلسل پاکستان کی طرف ہے۔ زہر اُگلا جارہا ہے۔ جنگی جنون کو ہوا دی جا رہی ہے۔
عرفان صدیقی کہتے ہیں پاکستان کی جانب سے پہلگام حملے کی بین الاقوامی انکوائری کرانے کی پیش کش کے باوجود بھارت حملے کی دھمکیاں دے رہا ہے، لیکن اسے اتنی خبر تو ہونی چاہیے کہ بندوقوں، مشین گنوں، توپوں، ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں والا زمانہ گزر گیا۔ پاکستان اور بھارت دونوں کی ٹوکریوں میں ناقابلِ تصوّر تباہ کاری پھیلانے والے تابکاری انڈے دھرے ہیں۔ لہذا پاکستان پر حملے اس سے پہلے بھارت کو 100 مرتبہ سوچنا ہوگا۔