آزاد کشمیر میں 1000 سے زیادہ دینی مدرسے بند کیوں کر دیے گئے ؟

انڈیا کی جانب سے ممکنہ حملے کے پیش نظر آزاد کشمیر کی حکومت نے ایک ہزار سے زائد دینی مدارس کو بند کرنے کا حکم نامہ جاری کر دیا ہے۔ حکام کا خیال ہے کہ انڈیا آزاد کشمیر میں کسی بھی مدرسے پر فضائی حملہ کر کے یہ الزام عائد کر سکتا ہے کہ یہاں جہادیوں کی ٹریننگ چل رہی تھی۔ یاد رہے کہ 2019 میں بھی پلوامہ خودکش حملے کے بعد جب بھارتی فضائیہ نے کشمیر میں بالاکوٹ کے مقام پر سرجیکل سٹرائیک کی تھی تو یہ موقف اختیار کیا تھا کہ اس کا ٹارگٹ ایک جہادی ٹریننگ سینٹر تھا۔ تاہم آزاد کشمیر میں سکولز، کالجز اور یونیورسٹیاں کھلی رہیں گی۔

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں حکومتی حکم نامے کے بعد مقامی انتظامیہ اور پولیس نے کنٹرول لائن کے قریب واقع دینی مدرارس اپنی نگرانی میں بند کروائے جبکہ خطے کے دیگر علاقوں میں بھی کم از کم ایک ہزار مدرسوں کو دس دن کے لیے بند کر دیا گیا جبکہ سکول، کالج اور یونیورسٹیاں کھلی ہیں۔

کنٹرول لائن کے قریبی علاقوں میں موجود مدارس کو بند کروانے کی نگرانی مقامی انتظامیہ کر رہی ہے۔

آزاد کشمیر حکومت کے جاری کردہ مراسلے میں صرف دینی مدرسے ہی بند کرنے کے احکامات نہیں دیے گئے بلکہ خطے میں سیاحوں کے داخلے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ یاد رہے کہ اس وقت آزاد کشمیر میں کنٹرول لائن کے قریبی علاقوں میں محکمہ سول ڈیفنس کے اہلکار شہریوں کو ہتھیار چلانے، سیلف ڈیفنس کرنے اور فرسٹ ایڈ فراہم کرنے کی تربیت بھی دے رہے ہیں۔

آزادکشمیر کے شہر مظفر آباد میں ایک ایمرجنسی فنڈ قائم کر دیا گیا ہے جبکہ پاک بھارت لائن آف کنٹرول کے قریب دیہات میں دو ماہ کا کھانا، پانی اور طبی سامان بھی بھیج دیا گیا ہے۔ علاقے میں فرسٹ ایڈ مہیا کرنے والے میڈیکل سٹاف کو بھی متحرک کر دیا گیا۔ حکام کا کہنا ہے کہ انڈیا کی ممکنہ فوجی کارروائی کی صورت میں لائن آف کنٹرول کے آس پاس کے علاقوں سے بڑی تعداد میں لوگوں کی نقل مکانی متوقع ہے، جسکے پیش نظر ریلیف کیمپ بھی تیار کیے جا رہے ہیں۔ واضح رہے کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان پہلگام حملے کے بعد اس وقت تناؤ کی کیفیت ہے۔ 22 اپریل کو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں ہونے والے اس حملے میں 26 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اس واقعے کے بعد اگرچہ اب تک انڈیا کی جانب سے باضابطہ طور پر پاکستان پر الزام نہیں لگایا گیا تاہم کئی پاکستان مخالف اقدامات ضرور اٹھائے گئے ہیں۔

آزاد کشمیر کے ضلع پونچھ کے علاقے ہجیرہ میں لائن آف کنٹرول سے تقریباً نو کلو میٹر دور دینی مدرسے جامعہ مدینہ عربیہ کو بھی دس دن کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔ اس مدرسے میں 200 سے زائد طلبا و طالبات مذہبی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ان طالب علموں کو مدرسہ کی انتظامیہ نے ہنگامی بنیادوں پر اپنے اپنے آبائی علاقوں کو روانہ کر دیا ہے۔  جامعہ مدینہ عربیہ کے مہتم مولوی غلام شاکر کے مطابق انھیں حکومت کی جانب سے بھارتی حملے کے خطرے کے پیش نظر مدرسہ بند کرنے کا کہا گیا ہے۔ جب انھوں نے مقامی حکام سے پوچھا کہ سکول و کالج کو تو بند نہیں کیا گیا تو انھیں بتایا گیا کہ مدارس انڈیا کی جانب سے کسی بھی ممکنہ کارروائی میں ایک آسان ہدف ہو سکتے ہیں اور وہ کسی بھی مدرسے پر حملہ کر کے اس بارے میں پراپیگنڈا کر سکتا ہے۔

مولوی شاکر کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ سکولوں و کالجوں میں زیادہ تر بچے ہاسٹلوں میں رہائش پذیر نہیں ہوتے ہیں جبکہ مدارس میں زیادہ تر بچے ہاسٹلوں میں مقیم ہوتے ہیں اس لیے بھی مدارس کو زیادہ خطرہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارا مدرسہ کنٹرول لائن سے کچھ ہی فاصلے پر موجود ہے۔ اس سے پہلے 2019 میں بھی ہمارے مدرسے کے آس پاس جھڑپوں کے دوران گولے گرے تھے مگر کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔ ان کا کہنا تھا ’اگر انڈیا کی جانب سے سرحد پار فائرنگ میں بھاری ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا تو خطرہ ہے کہ ہمارا مدرسہ بھی اس کی زد میں آ سکتا ہے، اسی لیے ہم نے مدرسہ مکمل بند کر دیا ہے۔

یاد رہے کہ 2019 میں مقبوضہ کشمیر کے جنوبی ضلع پلوامہ میں دھماکہ خیز مواد سے لدی ایک کار انڈین نیم فوجی دستے کے اہلکاروں سے بھری ایک بس سے جا ٹکرائی تھی، جس میں 40 سے زیادہ اہلکار ہلاک ہو گئے تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری مولانا مسعود اظہر کی زیر قیادت ایک جہادی تنظیم جیش محمد نے قبول کی تھی۔ اس واقعے کے 12 روز بعد انڈین فضایہ کے جنگی طیاروں نے آزاد کشمیر کے علاقے بالا کوٹ میں فضائی بمباری کر کے جیش محمد کی تربیت گاہ کو تباہ کرنے اور عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ تاہم انڈیا اس حوالے سے کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکا تھا

انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں سرینگر سے صرف 100 کلومیٹر کے فاصلے پر پاکستان کی جانب چکوٹھی سیکٹر ہے، جہاں کے رہائیشیوں نے پاکستان اور انڈیا کشیدگی کے پیش نظر اپنے گھروں میں بنکرز بنا لیے ہیں۔ علاقے کے ایک رہائشی فیضان عنایت نے بتایا کہ ’جیسے ہی فائرنگ ہوتی ہے تو وہ بھاگ کر بنکرز میں چلے جاتے ہیں۔ واضح رہے کہ پاکستان اور انڈیا میں حالیہ کشیدگی کے بعد کشمیر کی لائن آف کنٹرول پر دونوں ممالک کی افواج کے درمیان فائرنگ کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ فیضان کا کہنا تھا کہ ہم خوفزدہ نہیں، ہمارا بچہ بچہ ہے بھارت سے جنگ لڑنے کو تیار ہے۔

فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل : آئینی بینچ نے فیصلہ محفوظ کرلیا

آزاد کشمیر میں وادی نیلم کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ یہاں کشمیر کے باقی حصوں کی نسبت زیادہ سیاح آتے ہیں۔ کنٹرول لائن پر وادی نیلم کے آخری گاوں تاوبٹ میں گذشتہ سال مئی کے شروع میں بڑی تعداد میں سیاح موجود تھے۔ رواں برس بھی اپریل کے آخر میں بڑی تعداد میں سیاح تاوبٹ پہنچے تھے مگر آزاد کشمیر حکام نے ان سیاحوں کو انڈیا کے ممکنہ حملے کے پیش نظر علاقہ خالی کرنے کا کہہ دیا گیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ چند دن پہلے یہاں کافی تعداد میں سیاح موجود تھے مگر ابھی تاوبٹ اور وادی نیلم سیاحوں سے خالی ہو چکی ہے۔ لیکن آزاد کشمیر میں سیاحوں کی آمد پر پابندی عارضی ہو گی اور انڈیا پاکستان کے حالات بہتر ہوتے ہی سیاحوں کو دوبارہ آنے کی اجازت دے دی جائے گی۔

Back to top button