کیا PTI سہیل آفریدی کو وزیر اعلی بنوانے میں کامیاب ہوگی ؟

تحریک انصاف کی قیادت نے عمران خان کی خواہش کے مطابق 13 اکتوبر کو سہیل آفریدی کو نیا وزیراعلی بنوانے کا اعلان کر رکھا ہے، تاہم دیکھنا یہ ہے کہ کیا وہ اس منصوبے کو عملی شکل دینے میں کامیاب ہو پائے گی چونکہ گورنر فیصل کریم کنڈی نے علی امین گنڈا پور کے استعفے پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ وزیر اعلی کا استعفی منظور ہونے سے پہلے نئے وزیراعلی کا انتخاب نہیں ہو سکتا، لیکن گورنر کی جانب سے گنڈاپور کے استعفے کی منظوری سے پہلے ہی خیبر پختونخوا اسمبلی میں وزیراعلیٰ کے انتخاب کا شیڈول جاری کر دیا گیا ہے، پی ٹی آئی کے نامزد امیدوار سہیل آفریدی سمیت 4 اراکین اسمبلی نے اپنے کاغذاتِ نامزدگی جمع کروائے ہیں، جو منظور بھی کر لیے گئے ہیں۔ تحریک انصاف کی کوشش ہے کہ سہیل آفریدی کو بلا مقابلہ کامیاب کروا لیا جائے لیکن اس کا کوئی امکان نظر نہیں کیونکہ جمعیت علمائے اسلام، مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے امیدوار بھی میدان میں موجود ہیں۔ یہ امکان بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں اپنا متفقہ امیدوار سامنے لائیں گی جس کے نتیجے میں بڑا سرپرائز بھی آ سکتا ہے۔
وزارت اعلی کے لیے عمران خان کے نامزد کردہ امیدوار سہیل آفریدی نے کاغذات جمع کرانے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انتخاب آئین کے مطابق ہو رہا ہے اور اس میں بیرونی مداخلت برداشت نہیں کی جائے گی۔ الیکشن میں حصہ لینے کے لیے جن چار اراکین نے کاغذات نامزدگی جمع کروائے ہیں ان میں پی ٹی آئی کے سہیل آفریدی، پیپلز پارٹی کے ارباب زرک، جے یو آئی کے مولانا لطف الرحمان اور ن لیگ کے سردار شاہجہان یوسف شامل ہیں۔ کاغذات کی جانچ پڑتال کے بعد تمام امیدواروں کے کاغذات درست قرار دیے گئے۔ سپیکر خیبر پختونخوا اسمبلی کے مطابق وزیراعلیٰ کا انتخاب ہر صورت 13 اکتوبر کے روز ہوگا، جسے باقاعدہ اسمبلی ایجنڈے کا حصہ بنایا گیا ہے۔ تاہم اپوزیشن جماعتوں نے اعتراض اٹھایا ہے کہ گورنر نے ابھی تک استعفیٰ منظور نہیں کیا، جبکہ اسکی واپسی کے امکانات بھی موجود ہیں لہذا اتنی پھرتیاں نہیں دکھانی چاہیں۔
تحریک انصاف شدید اندرونی اختلافات کے باوجود سہیل آفریدی کو وزیراعلیٰ بنانے کے لیے متحد نظر آنے کی کوشش کر رہی ہے، تمام مرکزی قائدین گزشتہ کئی دنوں سے پشاور میں موجود ہیں، اور سیاسی جماعتوں سے ملاقاتیں بھی جاری ہیں۔ پی ٹی آئی کے وفد نے گزشتہ روز جے یو آئی کے مرکز کا دورہ کیا جہاں وزیر اعلیٰ کے انتخاب کو بلا مقابلہ کرانے کی درخواست کی گئی۔
اسکے بعد پی ٹی آئی کا وفد عوامی نیشنل پارٹی کے دفتر باچا خان مرکز بھی گیا، جبکہ ایک ملاقات ن لیگ کے صوبائی صدر اور وفاقی وزیر امیر مقام سے بھی ہوئی۔ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کے ساتھ بھی ملاقات کی گئی۔ ان تینوں ملاقاتوں میں جے یو آئی، نون لیگ اور پیپلز پارٹی سے درخواست کی گئی کہ وہ وزارت اعلی کے لیے اپنے امیدوار کھڑے نہ کریں۔ پی ٹی آئی کے مطابق انکی کوشش ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں بلا مقابلہ انتخاب میں ساتھ دیں۔
تاہم اپوزیشن کی کسی بھی جماعت نے تحریک انصاف کو اپنا امیدوار کھڑا نہ کرنے کی یقین دہانی نہیں کروائی اور زیادہ امکان یہی ہے کہ اپوزیشن کا متفقہ امیدوار کھڑا کیا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی اور نواز لیگ اپنے وزارت اعلی کے امیدوار دستبردار کروا لے گی جس کے بعد جمیعت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کے بھائی اور خیبر پختون خواہ اسمبلی میں پارٹی کے پارلیمانی لیڈر مولانا لطف الرحمن کو متفقہ امیدوار بنا دیا جائے گا۔ پچھلے ہفتے پشاور میں فوجی ترجمان کی پریس کانفرنس کے بعد کچھ اشارے ایسے بھی مل رہے ہیں کہ غیر سیاسی قوتیں سہیل آفریدی کے خلاف متحرک ہیں، اور پی ٹی آئی کو دوبارہ حکومت سازی میں مشکل پیش آنے کا خدشہ ہے۔
یاد رہے کہ فوجی ترجمان نے واضح الفاظ میں کہا تھا کہ دہشت گردوں کے سہولت کار اور ریاست مخالف کسی بھی شخص کو اقتدار میں نہیں آنے دیا جائے گا۔ کچھ وفاقی وزرا نے بھی سہیل آفریدی کو دہشت گردوں کا سہولت کار قرار دے دیا ہے۔ یاد رہے کہ سہیل آفریدی کو طالبان کا حمایتی سمجھا جاتا ہے اور وہ بھی عمران خان کی طرح خیبر پختون خواہ میں تحریک طالبان کے خلاف فوجی کارروائی کے مخالف ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق پی ٹی آئی اس وقت پریشان ہے، کیونکہ 145 اراکین پر مشتمل اسمبلی میں 92 نشستوں کی واضح اکثریت کے باوجود حکومت کے ہاتھ سے نکل جانے کا خدشہ موجود ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ پی ٹی آئی حکومت ختم ہو سکتی ہے اور خیبر پختون خواہ میں مولانا فضل الرحمان کی جے یو آئی کی مخلوط حکومت بن سکتی ہے۔
پشاور سے تعلق رکھنے والے سینیئر صحافی عامر شہزاد کہتے ہیں کہ اس وقت خیبر پختون خواہ میں تحریک انصاف کے 13 سالہ اقتدار کے خاتمے کا امکان پیدا ہو چکا ہے۔ انیوں نے کہاکہ پارٹی پوزیشن کو دیکھا جائے تو ایسا ہونا مشکل نظر آتا ہے، لیکن اگر پاکستانی سیاست کو مدنظر رکھا جائے تو کچھ بھی ممکن ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 25 سے زیادہ پی ٹی آئی اراکین ایسے ہیں جن کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ کسی بھی وقت اپنی وفاداری تبدیل کر سکتے ہیں کیونکہ الیکشن کمیشن کے تازہ نوٹیفکیشن کے مطابق وہ ازاد امیدوار ہیں اور ان پر فلور کراسنگ کا اطلاق نہیں ہوتا۔
انہوں نے کہاکہ اس وقت پی ٹی آئی مشکل میں ہے اور مرکزی رہنماؤں کو اندازہ ہے کہ اگر معاملے کو سنجیدگی سے نہ لیا گیا تو حکومت جا سکتی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ وہی پی ٹی آئی جو ماضی میں مولانا کو ’ڈیزل‘، اے این پی کو ’ایزی لوڈ‘ اور ن لیگ کو ’چور‘ کہتی آئی ہے، آج ان سے تعاون کی اپیل کر رہی ہے، لہذا یہی تاثر ملتا ہے کہ خیبر پختون خواہ اسمبلی میں اکثریت ہونے کے باوجود پی ٹی آئی کو دوبارہ حکومت سازی میں مشکلات کا سامنا ہے۔
پی ٹی آئی کے مرکزی ترجمان وقاص اکرم شیخ نے بھی اس خدشے کا کھل کر اظہار کیا ہے۔ انکے مطابق سہیل افریدی کا راستہ روکنے کی کوشش کی جائے گی اگر ایسا نہ ہو پایا تو پھر گورنر راج نافذ کیے جانے کا امکان ہے۔
تاہم نوجوان صحافی شہاب الرحمان کا خیال ہے کہ سہیل آفریدی کے وزیراعلیٰ بننے کے امکانات سب سے زیادہ ہیں۔ ان کے مطابق اس وقت پی ٹی آئی گروپ بندی کا شکار ہے، جس کی وجہ سے ہی علی امین کی حکومت ختم ہوئی، انکے مطابق سہیل آفریدی سب کے لیے قابلِ قبول ہیں، اور پی ٹی آئی کے تمام گروپس نامزد وزیراعلیٰ کے ساتھ ہیں۔ شہاب الرحمان نے کہا کہ جو بھی رکن اسمبلی سہیل آفریدی کے خلاف جائے گا، اسے معلوم ہے کہ صوبے میں پی ٹی آئی کارکنان اس کے لیے مشکلات پیدا کریں گے۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ سہیل آفریدی کے انتخاب میں مشکلات پیدا کی جا رہی ہیں، اور گورنر کی جانب سے علی امین گنڈاپور کا استعفیٰ منظور نہ کرنا بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ گورنر نے ابھی تک گنڈاپور کا استعفیٰ منظور نہیں کیا، لیکن نئے وزیراعلی کے انتخاب کے لیے ووٹنگ کی تیاریاں مکمل ہیں۔ ایسے میں اگر استعفیٰ سے پہلے ووٹنگ ہوتی ہے تو اس کے خلاف عدالت سے بھی رجوع کیا جا سکتا ہے۔
