کیا ٹرمپ کے داماد اور زلفی بخاری کی دوستی عمران کو بچا پائے گی؟

امریکی صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کا عمران خان کی رہائی کے لیے کوشش کا امکان اس لیے نظر نہیں آتا کہ دونوں ممالک کے تعلقات صدر جو بائیڈن دور کے تعلقات سے مختلف نہیں ہو سکتے۔ بنیادی وجہ یہ یے کہ اگست 2021 میں افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد سے امریکہ کے لیے پاکستان کی اہمیت کافی حد تک کم ہو چکی ہے کیونکہ اب اس خطے میں اسے پاکستان کی ضرورت نہیں۔

ٹرمپ کےعمران کیساتھ تعلقات کیوجہ خارجہ پالیسی قرار

بین الاقوامی سیاست پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا کہنا یے کہ اگر 2019 میں بطور صدر ٹرمپ کے تب کے وزیراعظم عمران خان کے ساتھ اچھے تعلقات تھے تو اس کی بنیادی وجہ بھی امریکی خارجہ پالیسی تھی جو اب تبدیل ہو چکی ہے۔ تب امریکہ، افغانستان سے نکلنا چاہتا تھا لہازا اسے پاکستان کی ضرورت تھی۔ اسی دوران وائٹ ہاؤس اور پھر دیگر فورمز پر ہونے والی ملاقاتوں میں صدر ٹرمپ نے عمران خان سے گرمجوشی کے ساتھ ملاقاتیں کیں۔ لیکن افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد سے یہ گرمجوشی اب سرد مہری میں تبدیل ہو چکی ہے۔

 ڈونلڈ کی پہلی ترجیح امریکہ ہوگی،سہیل وڑائچ

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ صدر منتخب ہونے کے بعد ٹرمپ کی پہلی ترجیح امریکہ کے معاشی حالات بہتر کرنا اور اسے مختلف جنگوں سے نکالنا ہو گی۔ عمران خان امریکہ کے عالمی کردار کو مضبوط بنانے یا اس کے داخلی مسائل کو حل کرنے میں مدد نہیں کرتے۔ لہذا یہ امید کرنا کہ ٹرمپ صدر بنتے ہی سب سے پہلے قیدی نمبر 804 کے حوالے سے سوچیں گے، حقیقی سوچ نہیں ہے۔

اس حوالے سے معروف تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کہتے ہیں کہ عمران ٹرمپ انتظامیہ کی توجہ تب ہی حاصل کر سکتے ہیں جب امریکہ میں ان کے پاکستانی حامی کانگریس اور سینیٹ کے ری پبلیکن ارکان کوئی کردار ادا کرنا چاہیں۔ انکا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے کارکنوں نے براہِ راست ٹرمپ کی انتخابی مہم کی مالی اعانت اور حمایت کی تھی۔ لہازا اس تعلق کی بنیاد پر ٹرمپ سے عمران کی حمایت حاصل کرنے کے لیے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

یاد رہے کہ امریکی صدارتی الیکشن سے قبل تقریباً 60 کانگریس ارکان نے عمران خان کی رہائی کیلئے صدر جو بائیڈن کو ایک خط لکھا تھا۔ یہ عمران کے حامی پاکستانی نژاد امریکیوں کی لابنگ اور حمایت کا نتیجہ تھا۔ ایسے میں ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد وہ کانگریس کے اراکین کے ذریعے یا براہِ راست ٹرمپ کی انتخابی مہم کی ٹیم کے ساتھ ایک اور کوشش کر سکتے ہیں۔

ایک اور عنصر جو پی ٹی آئی کے پاکستانی امریکی حامیوں کی مدد کر سکتا ہے وہ ہے ٹرمپ فیملی تک ان کی رسائی‘ خاص طور پر ان کے داماد تک‘ جو سابقہ ٹرمپ حکومت میں اہم عہدہ رکھتے تھے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ وہ اگلی حکومت میں بھی اہم ہوں گے۔ عمران کے ذاتی دوست زلفی بخاری کا دعوی ہے کہ ٹرمپ کے داماد ان کے ذاتی دوست ہیں لہذا وہ ڈونلڈ ٹرمپ تک براہِ راست رسائی کی امید رکھتے ہیں۔

تاہم سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ مسئلہ ٹرمپ تک رسائی کا نہیں بلکہ انہیں اس بات پر آمادہ کرنے کا ہے کہ وہ عمران کی رہائی کے لیے اپنا کردار ادا کریں جس کا انہیں کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ ان کا کہنا ہے کہ عمران اگر امریکی خارجہ پالیسی کا مسئلہ نہیں بنتے تو ان کے حق میں صدر ٹرمپ کے ایک بیان کا امکان مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم ٹرمپ کی ٹیم عمران کی حمایت میں کوئی بیان جاری کرتی بھی ہے تو وہ اس پر اصرار نہیں کریں گے‘ لہٰذا پاکستانی حکومت کو بھی اس مسئلے پر اپنی توانائی ضائع نہیں کرنی چاہیے۔

پاکستان امریکہ کا سٹرٹیجک پارٹنر نہیں،حسن عسکری

ڈاکٹر حسن عسکری رضوی اس حوالے سے کہتے ہیں کہ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اب پاکستان امریکہ کا سٹرٹیجک پارٹنر نہیں ہے۔ اب پاکستان نے چین کا ہاتھ تھام لیا ہے اور بھارت نے امریکہ کا۔ امریکہ اب پاکستان میں صرف اسی حد تک دلچسپی رکھتا ہے کہ افغانستان دوبارہ اسکے خلاف دہشت گردی کا مرکز نہ بنے۔ امریکہ کو افغانستان کی صورتحال کی نگرانی کی حد تک پاکستان کے تعاون کی ضرورت ہے۔ اسی لیے امریکہ پاکستان کی انسدادِ دہشت گردی کی کوششوں کی حمایت کرتا ہے۔

تاہم امریکہ سی پیک اور چین کے ساتھ پاکستان کی قریبی صف بندی بارے تحفظات کا اظہار کرتا رہے گا۔ پاکستان اس دباؤ کے سامنے نہیں جھکتا اور چین کے ساتھ اپنے کثیر جہتی تعلقات کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ حال ہی میں روس کے ساتھ بھی قربت پیدا کی گئی ہے۔ پاکستان کو امریکہ اور بھارت کے بڑھتے دفاعی تعلقات پر اعتراض ہے۔ امریکہ اور پاکستان کی بات چیت بیک وقت مثبت اور منفی رجحانات کا اظہار کرتی رہے گی‘ تاہم نہ تو پاکستان اور نہ ہی امریکہ ایک دوسرے کو مکمل طور پر ترک کریں گے۔ لیکن ان تعلقات میں عمران خان کہیں نظر نہیں آتے۔

Back to top button