تمام کیسز سے بری ہوئے بغیر عمران کی رہائی ممکن کیوں نہیں؟
امریکی صدارتی انتخاب میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے بعد پاکستان میں یہ قیاس آرائیاں زور پکڑ رہی ہیں کہ عمران خان کو ‘دوست’ کہنے والے ٹرمپ اُن کی رہائی کے لیے پاکستانی حکام پر دباؤ ڈال سکتے ہیں۔ جس کے بعد بہت جلد عمران خان جیل سے باہر آ جائیں گے۔ تاہم حکومتی ذرائع کا دعوی ہے کہ پہلے پہل تو امریکہ کی طرف سے عمران خان کی رہائی بارے کسی قسم کا مطالبہ کئے جانے کے امکانات معدوم ہیں تاہم اگر اس حوالے سے کوئی دباو سامنے آیا بھی تو حکومت اور اسٹیبلشمنٹ اس پر ایبسلوٹلی ناٹ کہہ کر اسے مسترد کر دینگے۔ مبصرین کے مطابق عمران خان کی رہائی صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ عدالتیں انھیں تمام الزامات اور مقدمات سے بری کر دیں اور عمران خان اپنی شرپسندانہ سیاست کو چھوڑ کر توبہ کر لیں۔ بصورت دیگر عمران خان کے جیل سے باہر آنے کے امکانات معدوم دکھائی دیتے ہیں۔
کیا واقعی ٹرمپ عمران خان کیلئے کوشش کریں گے،تجزیہ کار
تاہم یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی ڈونلڈ ٹرمپ عمران خان کی رہائی کے لیے کوئی کردار ادا کر سکتے ہیں؟ کیا امریکہ پاکستان کی سیاست میں دلچسپی لے گا؟ کیا حکومت یا اسٹیبلشمنٹ عمران خان بارے امریکی مطالبہ فوری تسلیم کر لے گی یا ایبسلوٹلی ناٹ کہہ کر رد کر دے گی؟
اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے سابق سفارت کار عاقل ندیم کا کہنا تھا کہ 2019 میں ڈونلڈ ٹرمپ اور بانی پی ٹی آئی کے درمیان بڑھنی والی قربتوں کا تعلق ان کے آپسی دوستی کی بجائے امریکہ کی خارجہ پالیسی سے تھا۔اُن کے بقول امریکہ، افغانستان سے نکلنا چاہ رہا تھا اور اسے پاکستان کی ضرورت تھی۔ اسی دوران وائٹ ہاؤس اور پھر دیگر فورمز پر ہونے والی ملاقاتوں میں صدر ٹرمپ نے عمران خان کے ساتھ گرمجوشی کے ساتھ ملاقاتیں کی تھیں۔عاقل ندیم کہتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے مزاج میں ویسے ہی گرمجوشی ہے اور وہ جس سے بھی ملتے ہیں، اسے اپنا دوست کہتے ہیں۔
حکومت کا خیال ہے ٹرمپ دباؤ نہیں ڈالیں گے،لکھاری
تجزیہ کار اور کالم نویس سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ حکومتی حلقوں کا خیال ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ بانی پی ٹی آئی کے حوالے سے کوئی دباؤ نہیں ڈالیں گے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ اس معاملے پر پاکستان سے بات ضرور کریں گے۔ لیکن بظاہر ایسا لگتا ہے کہ حکومت عمران خان کی رہائی سے متعلق کوئی مطالبہ نہیں مانے گی۔
تاہم اس حوالے سے تجزیہ کار مظہر عباس کہتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ کا پاکستان کی سیاست میں کردار تو رہا ہے، لیکن اُنہیں نہیں لگتا کہ ڈونلڈ ٹرمپ فوری طور پر اس معاملے پر کوئی بات کریں گے۔ لہذٰا یہ سمجھنا کہ ڈونلڈ ٹرمپ آتے ہی عمران خان سے متعلق کوئی مطالبہ کریں گے محض خام خیالی ہے۔
امریکہ پاکستان میں انسانی حقوق پرتحفظات کااظہار کرچکا
اُن کے بقول امریکہ پاکستان میں آزادیٔ اظہارِ رائے اور انسانی حقوق سے متعلق تحفظات کا اظہار کرتا رہا ہے اور ہو سکتا ہے کہ ٹرمپ دور میں بھی یہی تحفظات برقرار رہیں۔اُن کا کہنا تھا کہ اگر عمران خان کا فوجی عدالت میں مقدمہ چلتا ہے اور وہاں سے سزا ہوتی ہے اور کوی بڑی سزا ہو جاتی ہے تو اِس چیز کا امکان ہے کہ امریکہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کر سکتا ہے۔
اُن کے بقول پی ٹی آئی کے کچھ دوست یہ سمجھ رہے ہیں کہ ٹرمپ اقتدار سنبھالتے ہی اپنے نمائندوں کو پاکستان بھیجیں گے اور وہ عمران خان کی رہائی کی کوشش کریں گے تو ا،س چیز کے امکانات بہت کم ہیں۔
ٹرمپ کادباؤ آیا تواسٹیبلشمنٹ کا کیاردعمل ہوگا؟
تاہم یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے عمران خان کی رہائی کیلئے دباؤ آیا تو اسٹیبلشمنٹ کا ردِعمل کیا ہو گا؟ اس سوال کے جواب میں سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ اگر ٹرمپ نے کوئی دباؤ ڈالا تو پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اس معاملے کو عمران خان کے خلاف ہی استعمال کر سکتی ہے۔اُن کے بقول جب سے عمران خان سیاست میں آئے ہیں، ان پر ‘غیر ملکی ایجنٹ’، ‘یہودی ایجنٹ’ اور ایسے دیگر الزامات لگتے رہے ہیں۔ لہذٰا ٹرمپ انتظامیہ کے دباو کی صورت میں ان الزامات میں شدت آ سکتی ہے۔
عمران خان نےامریکہ سے دور اقتدار میں کوئی معاہدہ نہیں کیا،سہیل وڑائچ
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ جب عمران خان اور ٹرمپ دونوں طاقت میں تھے تو اُس وقت عمران خان نے امریکہ کے ساتھ معیشت کی بہتری کے لیے کوئی معاہدہ نہیں کیا نہ ہی پاکستان کو کسی قسم کا کوئی فائدہ ہوا۔ لیکن یہ ایک تاثر تھا کہ ٹرمپ کی اہلیہ عمران خان کی پرستار ہیں۔ تاہم اس پسندیدگی کی بنیاد پر یہ سمجھنا کہ وہ عمران خان کی رہائی کیلئے کوئی اقدامات کرینگے خام خیالی کے سوا کچھ بھی نہیں۔