ایئرسپیس بند:کیاانڈین جہاز کو ایمرجنسی لینڈنگ کی اجازت ملے گی؟

پہلگام واقعہ کے بعد پاکستان اور انڈیا کے درمیان سفارتی تعلقات ایک بار پھر تناؤ کا شکار ہیں۔ جہاں ایک طرف نئی دہلی اور اسلام آباد میں موجود سفارتی عملے اور دونوں ممالک کے شہریوں کے اپنے ملک واپس جانے کی ڈیڈ لائن گزر چکی ہیں وہیں دوسری جانب پاکستان نے انڈین ایئرلائنز کے لیے اپنی فضائی حدود بند کر دی ہیں اور کسی بھی بھارتی طیارے کو پاکستانی حدود استعمال کرنے سے روک دیا ہے۔ ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کوئی انڈین مسافر طیارہ ہنگامی یا میڈیکل ایمرجنسی میں پاکستانی حدود میں داخل ہوکر کسی پاکستانی ائیرپورٹ پر لینڈنگ کی اجازت حاصل کر سکتا ہے؟ کیا قانون اس کی اجازت دیتا ہے اور ماضی میں ایسے کتنے واقعات پیش آ چکے ہیں؟
مبصرین کے مطابق اگر ماضی پر نظر دوڑائیں تو متعدد بار انڈین طیاروں نے پاکستان اور بالخصوص کراچی کے جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر ایمرجنسی یا میڈیکل بنیادوں پر لینڈنگ کی ہے۔پاکستانی سول ایوی ایشن اتھارٹی کے قوانین کے مطابق کسی بھی غیرملکی طیارے کو ایمرجنسی یا طبی وجوہات کی بنیاد پر لینڈنگ کی اجازت دی جا سکتی ہے۔سول ایوی ایشن آرڈیننس 1960 کے تحت پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی کو فضائی نقل و حمل کو کنٹرول کرنے اور ریگولیٹ کرنے کے اختیارات حاصل ہیں، جن میں ایمرجنسی لینڈنگز سے متعلق قوانین و ضوابط بھی شامل ہیں۔علاوہ ازیں پاکستان ایئرپورٹس اتھارٹی ایکٹ 2023 ہوائی اڈوں کے انتظامات اور آپریشنز کا احاطہ کرتا ہے۔ یہ قانون ایمرجنسی لینڈنگز کے دوران مؤثر انتظامات کو یقینی بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے تاکہ کسی بھی ہنگامی صورتِ حال میں فوری ردِعمل فراہم کیا جا سکے۔
قانونی ماہرین کے مطابق یہ قانون بین الاقوامی ایوی ایشن ادارےآئی سی اے او کے اصولوں کے تحت ترتیب دیا گیا ہے، جس کی رُکنیت پاکستان اور انڈیا دونوں کے پاس ہے۔
آئی سی اے او کا ایننکس 9 ریاستوں کو پابند کرتا ہے کہ وہ انسانی جان کے تحفظ کے لیے ہر ممکن تعاون فراہم کریں۔
آئی سی اے او کے تحت تمام ریاستوں پر یہ لازم ہے کہ وہ ہنگامی حالات میں طیاروں کو فوری لینڈنگ کی اجازت دیں، خاص طور پر اگر مسافر کی حالت تشویش ناک ہو۔
ایوی ایشن امور کے ماہر راجہ کامران کے مطابق پاکستان کے ایوی ایشن قواعد کی رو سے اگر کسی پرواز میں انسانی جان کو خطرہ لاحق ہو، جیسے مسافر کو دل یا مرگی کا دورہ پڑنا، تو پائلٹ قریبی ایئر ٹریفک کنڑولر سے رابطہ کر کے ہنگامی لینڈنگ کی درخواست کر سکتا ہے۔ درخواست پر فوری غور کیا جاتا ہے اور اکثر انسانی بنیادوں پر اجازت دے دی جاتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ طیارے کے اترنے کے بعد مسافر کو طبی امداد فراہم کی جاتی ہے جبکہ دیگر مسافروں کو جہاز سے اترنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔
ضرورت پڑنے پر مسافر کو مقامی ہسپتال بھی منتقل کیا جا سکتا ہے، جیسے ایک واقعہ میں مسقط سے کیرالہ جانے والے طیارے کے مریض کو کراچی کے ایک نجی ہسپتال میں منتقل کیا گیا تھا۔
موجودہ صورتِ حال میں کیا ہو سکتا ہے؟
انڈین ایئرلائنز کے لیے پاکستانی فضائی حدود بند ہونے کے بعد یہ سوال اور اہم ہو گیا ہے کہ اگر کسی پرواز کو اچانک ہنگامی لینڈنگ کی ضرورت پیش آئے تو کیا ہو گا؟
سول ایوی ایشن اتھارٹی کے سابق ڈائریکٹر محمد عمران کے مطابق سیاسی کشیدگی اور سفارتی تعطل کے باوجود انسانی جان کو فوقیت دی جاتی ہے۔ پاکستان نے ماضی میں بھی تعلقات کشیدہ ہونے کے باوجود ایمرجنسی لینڈنگ کی اجازت دی ہے اور موجودہ صورتِ حال میں بھی اس پالیسی میں تبدیلی کا امکان کم ہے۔انہوں نے کہا کہ ’یہ قانون، اخلاقیات اور بین الاقوامی ذمہ داری کا سوال ہے۔ کسی بھی ملک کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی مریض یا زخمی کو طبی امداد سے محروم کرے۔‘
موجودہ کشیدہ صورتِ حال اور ایمرجنسی لینڈنگز کے حوالے سے پاکستان کی موجودہ پالیسی جاننے کے لیے اردو نیوز نے پاکستان ایئرپورٹس اتھارٹی سے رابطہ قائم کیا، تاہم متعدد کوششوں کے باوجود اتھارٹی کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ اس حوالے سے ابہام برقرار ہے کہ موجودہ حالات میں انڈین ایئرلائنز کو میڈیکل یا ایمرجنسی لینڈنگ کی صورت میں کیا طریقہ کار اپنانا ہو گا، خصوصاً جب پاکستان نے حال ہی میں انڈیا پر اپنی فضائی حدود کے استعمال کرنے پر پابندی عائد کی ہے۔